ایران میں صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے کے غیر حتمی نتائج کے مطابق ابراہیم رئیسی کو نمایاں برتری حاصل ہو گئی ہے۔
ابراہیم رئیسی کے مقابلے میں تین اور امیدوار بھی ہیں، جنھیں وہ شکست دے کر برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ایران میں صدارتی انتخابات میں کئی امیدواروں کو حصہ لینے سے روکا بھی کیا گیا ہے۔
ابراہیم رئیسی ایران کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قدامت پسند خیالات رکھتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کی پھانسی جیسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
رہبر اعلیٰ کے بعد ایران کا صدر ملک میں سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ صدر کا داخلہ اور خارجہ پالیسی پر گہرا اثر و رسوخ ہوتا ہے مگر سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کی ہر ریاستی معاملے پر بات حرف آخر ہوتی ہے۔
ابراہیم رائیسی کون ہیں؟
ابراہیم رئیسی 60 برس کے ہیں اور وہ اپنے کرئیر میں زیادہ وقت پراسیکوٹر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ انھیں 2019 میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سنہ 2017 میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے مارجن سے ہار گئے تھے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق ابراہیم رئیسی نے مارچ 2016 میں ایران کے سب سے امیر اور اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا فاؤنڈیشن۔۔۔آستان قدس رضوی۔۔۔ کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ ادارہ مشہد میں امام رضا کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔
یہ عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس ادارے کا بجٹ اربوں ڈالر کے برابر ہے اور یہ فاؤنڈیشن ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد اور تیل و گیس کمپنیوں اور کارخانوں میں آدھی اراضی کی مالک ہے۔
ایران میں متعدد لوگوں کے خیال میں اس منصب پر ان کی تقرری کا مطلب یہ ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای انھیں آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے خواہشمند تھے۔
ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم متعدد ایرانی اور انسانی حقوق کے علمبردار ان کے 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کے بڑے پیمانے پر قتل میں کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایران نے کبھی بڑے پیمانے پر قتل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ابراہیم رئیسی نے بھی کبھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کچھ نہیں کہا۔
ابراہیم رائیسی کی فتح کے ایران اور دیگر دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بی بی سی فارسی کی نامہ نگار قصرا ناجی کا کہنا ہے کہ ابراہیم رئیسی کے دور حکومت میں سخت گیر عناصر ایک خالص قسم کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کریں گے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ مزید سماجی سرگرمیوں پر کنٹرول حاصل کر لیں گے اور ممکن ہے کہ ایسے میں خواتین کے لیے آزادی اور ملازمتوں کے مواقع مسدود ہو کر رہ جائیں گے اور سوشل میڈیا اور پریس پر بھی کنٹرول زیادہ ہو جائے گا۔
سخت گیر خیالات والوں کو مغرب شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مگر ابراہیم رئیسی اور سپریم لیڈر خامنہ ای ایران کی جوہری پروگرام کے عالمی معاہدے میں واپسی کے خواہاں ہیں۔
2015 میں ایران نے جس جامع حکمت عملی کے پلان پر دستخط کے ذریعے جوہری سرگرمیاں کرنے پر اتفاق کرنے پر ایران کو مغربی ممالک کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں میں ریلیف ملا تھا۔
امریکہ اس معاہدے سے 2018 میں نکل گیا اور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک بار پھر ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔
ان پابندیوں سے عام ایرانی کی زندگی پر سخت اثرات مرتب ہوئے، جس سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان جیسی کیفیت پیدا ہوئی۔
ایران نے ایک بار پھر جوہری سرگرمیوں کو رواں رکھنے کا اعلان کیا۔
صدر جو بائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد ویانا میں امریکہ اور ایران کے درمیان ایک بار پھر اس معاہدے کی بحالی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ تاہم دونوں فریق ایک دوسرے کو پہل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
(بشکریہ :بی بی سی)