اسرائیلی وفد کے دوحہ سے "اندرونی مشاورت” کے لیے روانہ ہونے کے بعد باخبر ذرائع نے بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے ہونے والی بات چیت میں پیش رفت نہیں ہوئی۔تاہم اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ میں حماس کے سربراہ محمد السنوار نے اپنے مقتول بھائی یحییٰ السنوار کے مقابلے میں زیادہ سخت موقف کا مظاہرہ کیا ہے۔اسرائیلی چینل 12 کے مطابق سینئر اسرائیلی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ زندہ اسرائیلی قیدیوں کی فہرست اسرائیل کے حوالے کرنا ایک بنیادی شرط ہے جس کے بغیر تبادلے کے معاہدے کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتےانہوں نے مزید کہا کہ مفاہمت کے مطابق حماس کو جنگ بندی کے آغاز اور خواتین کی آزادی کے 7 دن بعد ایک مکمل فہرست سونپنی چاہیے جس میں اس کے تمام اسرائیلی قیدیوں کو شامل کیا جائے۔
دوسری جانب حماس نے ابھی تک تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کے ناموں کی مکمل فہرست حوالے کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن اسرائیل کے ’یدیعوت احرونوت‘ اخبار کے مطابق معاہدے کے حوالے سے اسرائیل اور حماس کے موقف کے درمیان فرق زیادہ نہیں رہا ہے۔
اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو جنگ بندی شروع ہونے کے لمحے سے ہی دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی فوراً ہو جائے گی۔خبار نے اشارہ کیا کہ معاہدے کی بات چیت میں حصہ لینے والے فریقین فلاڈیلفیا محور ، نیٹزاریم محور اور دونوں طرف سےقیدیوں کی مختلف مراحل میں رہائی پانے والوں کی تعداد کے بارے میں مفاہمت پر پہنچ گئے ہیں۔
•••مشکلات اور رکاوٹیں
قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی ذرائع نے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں مشکلات اور رکاوٹوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ حماس کے ساتھ مذاکرات میں کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، لیکن وہ جاری ہیں۔ حماس سے جنگ مکمل طور پر ختم کیے بغیر کسی معاہدے پر رضامندی کی توقع کرنا مشکل ہے۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بستیوں اور فوجی اڈوں پر حماس کے حملے کے بعد 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اڑھائی سوکے قریب اسرائیلیوں کو اغواء کرلیا تھا۔ پچھلے سال نومبر میں چھ روزہ جنگ بندی 100 کے قریب اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے تمام کوششیں رائے گاں گئی ہیں۔