از سرفراز بزمی
ترے ہجر نے عطا کی یہ عجیب بے قراری
” نہ سکت ہے ضبط غم کی نہ مجال اشکباری”
مرے سومنات دل پر صف غزنوی سے بڑھ کر
تری شبنمی ادائیں ، ترا طرز غمگساری
میں کہاں ہوں اور کیا ہوں ،تو کہاں ہے اور کیا ہے؟
اسی جستجو میں گزری ، کبھی رات ساری ساری
یہ ستیزہ گاہ عالم ، یہ حریف زلف برہم
نہ جنون فتنہ ساماں ، نہ خرد کی ہوشیاری
"تو مری نظر میں کافر ، میں تری نظر میں کافر”
میں اسیر زلف جاناں ، تو حریص شہریاری
مری خشک کشت دل پر ، ترے لفظ برق مضطر
کہ دھواں دھدھک نہ جائے ، تری تہمتوں پہ واری
یہ مجاوران کعبہ ، انھیں کیا ہوا خدایا !
ترے دوستوں سے نفرت ، ترے دشمنوں سے یاری
کوئ رستمی سے کہدے ، کوئ مرحبی سے کہدے
میں غلام مصطفی ہوں ، مرا شوق جانثاری
ہے بیان حال گلشن ، یہ جلے جلے نشیمن
یہ گھٹی گھٹی فضائیں ، یہ گلوں کی آہ و زاری
اے غرور بندہ پرور ، تجھے ہو جو خوف محشر
تو سریر سلطنت بھی ھے کلاہ خارداری
رہ زندگی میں بزمی ، یہ متاع دل کی بازی
کبھی رہزنوں سے ہاری ، کبھی رہبروں سے ہاری
سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور
راجستھان انڈیا 9772296970