نئی دہلی:بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک تقریب میں ایک مسلم خاتون کو تقرری کا خط پیش کرتے ہوئے اس کے چہرے سے حجاب ہٹانے پر سیاسی بیان بازی جاری ہے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اب کہا ہے کہ نتیش کمار نے کچھ غلط نہیں کیا۔ "اگر کسی کو تقرری کا لیٹر ملنے والا ہے تو کیا وہ اپنا چہرہ نہیں دکھائے گا؟ کیا یہ اسلامی ملک ہے؟” نتیش نے بطور سرپرست اپنی حیثیت سے کام کیا۔ "جب آپ پاسپورٹ بنوائیں یا ایئرپورٹ جائیں تو آپ اپنا چہرہ نہیں دکھاتے؟” انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں قانون کی حکمرانی ہے۔ جب ان خبروں کے بارے میں بتایا گیا کہ خاتون ملازمت میں شامل ہونے سے انکار کر رہی ہے، تو گری راج سنگھ نے جواب دیا، "انکار کرے یا جہنم میں جائے۔”
اس سے پہلے یوپی کے ماہی پروری کے وزیر سنجے نشاد نے بھی نتیش کے بارے میں ایسا ہی بیان دیا تھا، جس سے انہیں وضاحت جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس نے پوچھا تھا کہ اگر وہ کہیں اور چھوتا تو کیا ہوتا۔ جس کے بعد کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے وزراء نے غیر مشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ سنجے نشاد نے پھر وضاحت کی کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر غلط سمجھا گیا ہے۔ ہنگامہ آرائی اور ترجمے میں اصل معنی کھو گیا۔
سنجے نے یہ بھی کہا کہ وہ گورکھپور اور بھوجپوری بولنے والے علاقے سے آتے ہیں، جہاں بولنے اور بات کرنے کا انداز علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ بھوجپوری میں، لوگوں کو مشورہ دینا ایک عام رواج ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں اور تحمل سے کام لیں۔ میں نے ہندی میں بھی یہی انداز استعمال کیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ جس طرح ہریانہ، دہلی، مہاراشٹر اور تامل ناڈو میں بولنے کے طریقے مختلف ہیں، اسی طرح شمالی اور مشرقی ہندوستان میں بولیاں بھی مختلف ہیں۔ اس کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں کہ میرا ارادہ کسی کی توہین کرنا تھا۔







