تحریر: قاسم سید
اترپردیش کے انتخابی نتائج ے جہاں بڑے بڑے سورماؤں اور سیاسی پنڈتوں کو زمین پر پٹک دیا وہیں رومانیت پسند اور حسین خوابوں کی عملی تعبیر دیکھنے کی خواہش نا تمام پالنے والوں کے چودہ طبق روشن کردیے۔سیاست کو شوق اور جبریہ مشورے دینے کو بنیادی حق سمجھنے والے پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ ہوتادیکھ رہے ہیں جس کے امکانات پر سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ظاہر ہے جنگ کو صرف جیت کے زاویہ سے دیکھنا اور ہار کے خدشہ کے ساتھ دفاعی حکمت عملی تیار نہ کرنے والوں کا جو حشر ہوتا ہے اکھلیش گٹھ بندھن کی درگت دیکھ کر ان کا بھی وہی حال ہے ۔
ہر قیمت پر اقتدار کے لیے سب کچھ کر گزرنے کی طاقت اورہر لمحہ کامیابی کی للک رکھنےاور اس کے لیے ہر ممکن محنت کرنے والی والی نظریاتی سیاسی پارٹی کا مقابلہ جوشیلے نعروں سطحی تجزیوں،گالیوں،کوسنوں اور وہاٹس ایپ پر اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی بچکانہ حرکتوں سے نہیں کیا جاسکتا اس الیکشن اور اس کے نتائج کا ایک سبق یہ ہے۔
دوسراسبق یہ ہے کہ سیا ست چند ماہ کی مٹرگشتی،آوارگی دل،سرگرمی اور عارضی جوڑتوڑ کا نام نہیں اگر تھا تو اب نہیں ہے۔ بی جے پی یہ کرکے دکھارہی ہے۔ یہ24×7والا کام ہے ۔اس کی سکت ہے تو کریں ورنہ دوسرا کام ڈھونڈلیں ،لیڈر ہو یا ورکر سب کے لیے میسیج ہے۔
تیسرا سبق ہر سیاسی پارٹی،کمیونٹی خاص طور سے مسلمانوں کے لیے ہے کہ رومانوی وتصوراتی سیاست کی بساط بی جے پی نے لپیٹ کر رکھ دی ہے۔ گجرات سے سلسلہ شروع ہوگیا تھا ،مگر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا اور مات کھاتے گئے۔ اب لٹکوں جھٹکوں، بینر، پوسٹر زندہ باد مردہ باداورمن پسند امیدواروں کی فہرستوں کے اجراکازمانہ نہیں رہا،ڈیجیٹل انڈیا نے سیاست کے سارے زاویے اور زایچے بدل دیے ہیں۔اورنئی عبارت لکھ دی ہے، خانقاہوں،درگاہوں پر حاضری ٹوپیاں پہنانے، رومال ڈالنے۔ افطار پارٹیوں کے چونچلے، اجتماعی وفد بناکر کسی کی حمایت یا مخالفت کی یقین دہانیوں، پارٹی کے بڑے لیڈر سے مل کر ووٹوں کے لین دین کے معاملات اور کی سیاست کو بی جے پی نے منوں مٹی نیچے دفن کردیا ہے اسے ہم مسلم کمیونٹی پر بی جے پی کا احسان سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے مڈل مین والی سیاست کو آگے نہیں بڑھایا۔ اسے ضرورت بھی نہیں تھی ویسے بھی یہ طبقہ اپنی افادیت، اہمیت اور ضرورت کھوکر irrelevant ہوگیاہے ۔اس کی لین دین کی سیاست نے مسلمانوں کو تو فایدہ نہیں پہنچایا البتہ انکے گھر کے آنگن ضرور بڑے ہوگیے جو مسلم ووٹروں کو کبھی ادھر اور کبھی ادھر ہنکانے کے
عوض اپنے لیے کچھ مراعات ضرور حاصل کرتے رہے جیسے قانوں ساز اداروں کی رکنیت،ٹھیکیداری،پرمٹ،پٹرول پمپ، گیس ایجنسی، سرکاری اداروں کی ممبری، پسندیدہ فرد کو ٹکٹ،پرسنل پروجیکٹوں کی منظوری، پلاٹ پوسٹنگ یا ٹرانسفر کی سفارش وغیرہ۔
ٹیکٹیکل ووٹنگ فارمولہ کے آقاؤں اور خالقوں کی اکثریت کو ہر لحاظ سے آسودہ اور مالامال کردیا۔گزشتہ تیس سالوں سے ان کے پھلتے پھولتے کاروبار،ملت کے نام پر قائم اداروں کے پرائیویٹایزیشن یا نجی کرن،کاروبار وامپائرکے حدود میں وسعت سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چیلنج کرنے پر دلائل کے ساتھ بات ہوسکتی ہے، مگر دوسری طرف دیکھیں تو مسلمانوں کے ہاتھ میں وہی کٹورہ وہی مسائل وہی الجھنیں نئے نئے عنوان سے گھیرتی رہیں، بلکہ جہاں نجوم ملت کی مشکلیں آسان ہوتی گئیں ملت محروم اور پیچھے دھکیل دی گی۔ ہمارے مٹھی بھر سیاسی طبقہ کی شان وشوکت ماشاءاللہ ثم ماشاءاللہ دوچند ہوتی گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تو سیل رواں آیا دوسری طرف عام مسلمان کا پیٹ پیٹھ سے لگتا گیا ،اس میں وہ بھی شامل ہیں جو سیاست کا نام لینے پر کانوں پر ہاتھ لگاکر دس بار توبہ واستغفار کرتے اور نعوذباللہ کہتے ہیں، جبکہ ان کا ہر بیان 24کیرٹ سیاست ہوتا ہے۔
شاید انہوں نے وقت کی دستک نہیں سنی ،بدلتے حالات کا اندازہ نہیں لگایا یا لگانا ہی نہیں چاہتے وہی سیاست کے انداز وہی لٹکے جھٹکے،گھسے پٹے فارمولے جو اب سکہ رائج الوقت نہیں رہے۔کیا وہ نہیں جانتے کہ الیکٹورل سیاست نے نئی کینچلی پہن لی ہے اس کے معنی،مفہوم رنگ ڈھنگ اسٹائل کی نئی لغت تیار ی کی ہے۔نئے بیانیے مارکیٹ میں آگئے ہیں آپ کے سیاسی متبادل ختم ہوتے جارہے ہیں۔ براہ کرم نیا سوچئے نئے زمین آسمان تیار کرئیے،نئی قیادت کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کریے اسے راستہ دکھائیے،اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے، بصورت دیگر نفرت کم کرنے کے لیے قومی یکجہتی کانفرنسوں،بین الاقوامی مشاعروں مزاج خانقاہی کو پختہ ترکرنے اوراور وظائف کی تعداد بڑھاکر بلائیں ٹالنے اور دعا کرنے کرانے کا راستہ تو ہر حال میں موجود ہے ۔بغیر یہ بتا ۓئے کہ سارے وسائل کام لاکرہی اللہ کے حضور مدد کی درخواست ڈالی جاتی ہے۔ ہمارے نہ چلنے سے دنیا تو نہیں رکے گی۔کیا ہم اترپردیش سے سبق لینے کو تیار ہیں۔