تحریر:فاطمہ خان
16 اپریل کو دہلی کے جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی جلوس میں تشدد کے بعد، شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) نے 20 اپریل کو علاقے سے تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع کی۔ اس کارروائی پر سپریم کورٹ نے اسی دن روک لگا دی تھی لیکن تب تک جہانگیر پوری کے کئی غریب خاندانوں کی دکانیں اور مکانات منہدم ہو چکے تھے۔ تشدد پر سوال اٹھاتے ہوئے، بی جے پی اور عام آدمی پارٹی نے علاقے میں ’بنگلہ دیشی‘ اور ’روہنگیا‘ کا مسئلہ اٹھایا، لیکن کیا جہانگیرپوری میں رہنے والی آبادی ’بنگلہ دیشی‘ ہے؟
جہانگیر پوری میں پولیس کی پابندی، پریشان ہوتے لوگ
اس وقت بھی جہانگیرپوری میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ پورے علاقے کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو بنیادی سہولیات کے لیے آنے جانے اور میڈیا سے بات کرنے سے روکا جا رہا ہے۔جہانگیر پوری کی رہائشی حسینہ کی کباڑے کی دکان 20اپریل کو ہوئی کارروائی میں مسمار کردی گئی۔ حسینہ کی بیٹی کینسر کی مریضہ ہے ۔
دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے حسینہ بتاتی ہے کہ ’’میری بیٹی کینسر کی مریضہ ہے۔ ایمس میں ان کا علاج چل رہا ہے۔ اس سارے تشدد اور اس کے بعد کی کارروائی کے دوران لڑکی بیمار پڑگئی اور ہم بھی۔ یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں دیکھتا ہے، اسے سیدھا اسپتال جانا پڑتا ہے۔ پولیس نے ابھی تک جانے نہیں دیا۔ کہتے ہیں کہ جب کھلے گا تب جانا۔‘‘
’بنگلہ دیشی‘ ہونے کے الزام اور گرفتاریاں
روہت کئی سالوں سے جہانگیر پوری میں آٹو چلاتے ہیں۔ 16 اپریل کو ہونے والے تشدد کا اثر ان کے کاروبار پر بھی پڑا۔روہت کا کہنا ہے کہ دکان اور مکان کے انہدام کی وجہ سے صرف اورصرف غریبوں کو ہی نقصان پہنچا ہے۔
’’ہم ہندو اور مسلمان یہاں پر امن سے رہتے ہیں۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ بنگالی ہیں اور بنگال بھی ہندوستان کا حصہ ہے۔ وہ بنگلہ دیشی نہیں بلکہ کولکاتا سے آئے ہیں۔تو یہ ہندوستانی ہو تو ہیں کیونکہ کولکاتا ہندوستان میں آتا ہے ۔‘‘
منو (35) کے بہنوئی کو پولیس نے 16 اپریل کو تشدد کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے چہرے پر چوٹ کے نشانات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب پولیس اسے گرفتار کرنے آئی تو ہم اس کی بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے چھوڑنے کی منتیں کرتے رہے لیکن ہمیں لاٹھیوں سے بھی مارا گیا اور اب چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ ہم اپنی بنیادی ضروریات کی چیزیں اور کرانے کا سامان لینے کے لیے باہر بھی نہیں جا سکتے ہیں ۔ کیا ہمیں یہیں مر جانا چاہئے؟ اس طرح جینا مشکل ہے ۔‘‘
جہانگیرپوری میں تشدد اور این ڈی ایم سی کی کارروائی کے بعد یہاں رہنے والے لوگ کئی طرح کے مسائل سے پریشان ہیں۔ بنگلہ دیشی ہونے کے بھی الزام لگے لیکن علاقے کے ہندو- مسلمانوں کو ان سب کے درمیان جو صدمہ پہنچا وہ ان کی بات چیت میں نظر آرہا ہے ۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی )