حماس کے رہنما غازی حمد نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات منجمد ہیں۔ انہوں نے حماس کی جانب سے منظر سے خارج ہونے سے انکار کردیا۔ حماس کے رہائشی ہیڈکوارٹر پر اسرائیلی فضائی حملے میں زندہ بچ جانے کے دو ہفتے بعد قطری دارالحکومت دوحہ میں سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غازی حمد نے کہا کہ اگر ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس کے ہتھیار فلسطینی فوج کے پاس جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس سات اکتوبر کے حملے کے بعد ہونے والے بھاری نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم انہوں نے تحریک سے ہونے والے بھاری نقصانات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ ہم نے 7 اکتوبر کے بعد بھاری قیمت ادا کی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انسانی ہلاکتوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کے پیمانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے غازی حمد نے کہا کہ غزہ میں دسیوں ہزار افراد کی اموات نے فلسطینی کاز کو مزید اجاگر کردیا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک "امن منصوبہ” پیش کیا ہے۔ اس کے بارے میں امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وِٹکوف نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ان کا ملک آنے والے دنوں میں اسے منظور کرا لے گا۔ 21 نکاتی منصوبہ منگل کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ٹرمپ اور وٹکوف کے ساتھ ملاقات کے دوران متعدد عرب اور اسلامی رہنماؤں کو پیش کیا گیا۔تین ذرائع کے مطابق جنہوں نے اجلاس میں شرکت کی یا انہیں اس کے مواد کے بارے میں بتایا گیا اس میں تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس منصوبے میں پوری غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلاء اور حماس کے بغیر ایک گورننگ میکنزم کا قیام بھی شامل ہے۔ اس میں فلسطینیوں اور عرب اور اسلامی ملکوں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک سکیورٹی فورس کی تشکیل کی بھی شرط رکھی گئی ہے۔ اس منصوبے نے نئی انتظامیہ اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب اور اسلامی فنڈنگ کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس نے انتظامات میں فلسطینی اتھارٹی کی کچھ شمولیت پر بھی بات کی۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اس منصوبے کی کچھ شقوں سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ خاص طور پر چونکہ اس میں حماس کے تخفیف اسلحہ یا غزہ میں جنگ کے خاتمے کی شرائط کے طور پر عام طور پر غیر مسلح کرنے کی شرط نہیں رکھی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے پٹی پر حکومت کرنے میں فلسطینی اتھارٹی کی شرکت کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ نیتن یاہو حکومت نے اس سے قبل غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے پانچ شرائط رکھی تھیں۔ حماس کا تخفیف اسلحہ، تمام یرغمالیوں کی واپسی، غزہ کو غیر فوجی بنانا، پٹی پر اسرائیلی سکیورٹی کنٹرول اور ایک سول انتظامیہ کا قیام جو حماس یا فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت نہ ہو۔








