فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے آج پیر 14 اپریل کو کہا ہے کہ ان کی تنظیم ”قیدیوں کے سنجیدہ تبادلے‘‘ اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اسرائیلی ضمانتوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب حماس قاہرہ میں مصر اور قطر کے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت میں مصروف ہے۔
دوحہ اور قاہرہ کے نمائندے امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے لیے سر گرم ہیں۔ حماس کے ایک سینئر اہلکار طاہر النونو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم قیدیوں کے تبادلے کے ایک سنجیدہ معاہدے، جنگ کے خاتمے، غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور انسانی امداد کے داخلے کے بدلے تمام اسرائیلی اسیروں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ”مسئلہ قیدیوں کی تعداد کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے وعدوں سے مکر رہا ہے، جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو روک رہا ہے اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اس لیے حماس نے قابض (اسرائیل) کو معاہدے کو برقرار رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ضمانتوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔‘‘ دوسری جانب اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کی جانب سے حماس کو ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس تجویز کے تحت حماس زندہ بچ جانے والے دس یرغمالیوں کو رہا کرے گا، جس کے بدلے میں امریکی ضمانت کے تحت اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت میں داخل ہو گا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جو 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس میں متعدد یرغمالیوں کے تبادلے شامل تھے۔ تاہم یکم مارچ کو پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد جنگ بندی کی نئی کوششیں رک گئی ہیں، جس کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ نونو کا یہ بھی کہنا تھا کہ حماس خود کو غیر مسلح نہیں کرے گی، یہ ایک ایسی اہم شرط جو اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کے لیے رکھی ہے۔ ڈی ڈبلیو