حماس تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحیی السنوار نے باور کرایا ہے کہ ان کی تنظیم ایران کے حمایت یافتہ علاقائی اتحادیوں کی معاونت سے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے ساتھ "چُور کر دینے والی طویل جنگ” کے لیے تیار ہے۔واضح رہے کہ سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ بارھویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔
السنوار نے اگست میں اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کی سربراہی سنبھالی تھی، ہنیہ کو جولائی کے اواخر میں ایرانی دار الحکومت تہران میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کارروائی کو اسرائیل سے منسوب کیا گیا۔ حماس کے سربراہ غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ ان کا حالیہ بیان یمن میں حوثیوں کے سربراہ عبد الملک الحوثی کو بھیجے گئے خط میں سامنے آیا ہے۔ خط میں السنوار نے حوثیوں کی جانب سے اتوار کے روز ایک بیلسٹک میزائل داغنے کی کارروائی کو سراہا۔ یہ میزائل اسرائیل کے وسط میں جا کر گرا تھا۔
السنوار کے مطابق "مزاحمتی تحریک خیر و عافیت سے ہے”۔ انھوں نے مزید کہا کہ "ہم نے خود کو ایک طویل معرکے کے لیے تیار کر لیا ہے جو دشمن کو کمزور کرنے کے علاوہ اس کے سیاسی ارادے کو بھی توڑ دے گا جس طرح طوفان الاقصی آپریشن نے دشمن کے فوجی ارادے کی کمر توڑ دی”۔اسرائیل کی جانب سے السنوار کو "ختم کرنے” کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ اسرائیل الزام عائد کرتا ہے کہ السنوار سات اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں شامل ہیں۔
*السنوار کے "کوڈ شدہ” پیغامات دوسروں تک کیسے پہنچتے ہیں؟
غزہ میں فائر بندی کی بات چیت میں شامل بعض عرب وساطت کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ السنوار عموما ہاتھ سے لکھا جو پیغام یا خط ارسال کرتے ہیں وہ پہلے حماس تنظیم کے ایک معتبر رکن کے پاس جاتا ہے۔اس کے بعد وہ سلسلہ وار قاصدوں کو منتقل کیا جاتا ہے جن میں بعض قاصد عام شہری بھی ہو سکتے ہیں۔ وساطت کاروں نے واضح کیا کہ یہ پیغامات یا خطوط بیشتر اوقات مختلف حالات اور اوقات میں مختلف وصول کنندگان کے لیے مختلف خفیہ علامتوں یعنی Codes پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد وہ تحریری نظام ہے جس کو السنوار اور دیگر فلسطینی قیدیوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید کے دوران وضع کیا تھا۔
تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ ان احتیاطوں اور علامتی اسلوب کے باوجود بھی بڑی حد تک خطرات موجود ہیں۔ کسی بھی غلطی کی قیمت السنوار کی جان جانے کی شکل میں چکانا پڑ سکتی ہے۔