ریاست ہریانہ میں سیاسی پارٹیاں مختلف وعدوں سے ووٹروں کو لبھا رہی ہیں۔ مگر اس تلخ حقیقت پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ ہریانہ ایک ایسا صوبہ ہے، جہاں آبادی میں صنفی تناسب کا توازن غیر معمولی حد تک بگڑا ہوا ہے۔ اس حد تک کہ کئی اضلاع کے دیہی علاقوں میں دور دور تک لڑکیاں دکھائی نہیں دیتیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ تو دیا، مگر بیٹی کو پیدا ہونے دو کی کوئی مہم نہیں چلا رہی ہے۔
چند ماہ قبل خبر آئی تھی کہ ہریانہ کے کئی علاقوں میں شادی کے لیے شمال مشرق کے صوبوں سے دلہنیں لائی جاتی ہیں۔ ایک واقعہ جو میڈیا میں آگیا، اس کے مطابق باہر سے لائی گئی ایک لڑکی کی پہلے بڑے بھائی کے ساتھ شادی کی گئی۔ بعد جب حمل ٹھہرگیا اور بچہ پیدا ہوا تو پھر دوسرے بھائی کے ساتھ شادی کرادی گئی۔ جب اس سے بچہ پیدا ہوا تو اسے تیسرے بھائی کی بیوی بنادیا گیا۔ گویا عورت نہ ہوئی، بلکہ بچے پیدا کرنے کی مشین ہوئی، جس کو آپریٹ کرنے والے میکنک بدلتے گئے۔ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ اس دوران ایک بار اس کا اسقاط حمل بھی کرادیا گیا کیونکہ ڈاکٹر نے لڑکی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا تھا۔
ایسے ان گنت واقعات ہریانہ کے دیہی علاقوں میں سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک عورت کو گھر کے تمام مرد باری باری ‘استعمال‘ کرتے ہیں۔ ہریانہ دہلی سے متصل ہے اور ملک کا ایک خوشحال صوبہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے روشن خیالی کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔
بھارتی حکومت نے 1994ء میں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون بنایا تھا لیکن اس کے باوجود ملک کے کئی حصوں میں اسقاط حمل کے غیر قانونی مراکز اپنی ”خدمات‘‘ فراہم کر رہے ہیں۔ ہریانہ میں ایسے مراکز پر کچھ زیاہ ہی سختی ہے۔ مگر یہاں کی خواتین اپنے مردوں کے ساتھ پڑوسی صوبوں اتر پردیش، راجستھان اور دہلی جا کر غیر قانونی مراکز میں جینین میں جنس کی تشخیص کرا کر لڑکی ہونے کی صورت میں حمل گرا دیتی ہیں۔
مجھے امید تھی کہ اس بار کوئی سیاسی جماعت ان خواتین کی حالت زار پر توجہ دے گی اور صوبہ میں صنفی تناسب کو بہتر کرنے کے لیے کسی روڑ میپ کا اعلان کرے گی۔ مگر لگتا ہے کہ یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
جب بی جے پی حکومت کی بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم شروع ہوئی تھی تو ہریانہ میں صنفی تناسب قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ ہریانہ میں صنفی تناسب جو 2015ء میں 876 تھا وہ 2016ء میں بڑھ کر 900 تک پہنچ گیا تھا۔ یہ رجحان 2019ء تک جاری رہا جب صنفی تناسب 923 تک پہنچ گیا۔ تاہم اس کے بعد سے یہ مسلسل گرتا رہا اور اب 902 پر آ گیا ہے۔ دہلی سے متصل ضلع گڑگاؤں(گروگرام) میں تو یہ تناسب 854 ہے۔
اس صنفی عدم توازن کی وجہ سے مردوں کے لیے دلہنیں تلاش کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ خوشحال گھرانے دوسرے صوبوں سے دلہنیں خرید لاتے ہیں۔ یہ انسانی اسمگلنگ کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔
نہ صرف ان خواتین کی صحت اور تندرستی سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے بلکہ یہ خواتین معاشرے اور خاندان میں بھی سماجی حیثیت اور حق سے محروم رہتی ہیں۔ سماجی امور کے ماہر یوگیش پوار کہتے ہیں کہ ”ان خواتین کے ساتھ‘‘ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ طے ہے کہ جب ووٹ کی بات آتی ہے تو کوئی بھی پارٹی ووٹروں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ ہریانہ کے دیہاتوں میں، عام طور پر پنچائیت یا دیہات کا سربراہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ اور اگر اس تاؤ، جو پنچائیت کا سربراہ ہوتا ہے، کے دماغ میں صنفی تناسب کو بہتر بنانے کی تجویز ڈالی گئی، تو خدشہ ہے کہ اس کا دماغ ہی نہ الٹ جائے اور وہ اس پارٹی کے خلاف مورچہ کھڑا کردے۔
صنفی انصاف اور خواتین کے حقوق جیسے مسائل پربحث معاشرے کی جاگیردارانہ ذہنیت کو ہمیشہ پریشان کر دیتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس ذہینت کے خلاف مہم نہیں چلاتی ہے۔ چونکہ ہریانہ دہلی سے متصل ہے اور وہاں جو رجحانات پائے جاتے ہیں، ہم دلی والوں پر اس کا اثر پڑتا ہے، اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ اس ریاست جو بھی نئی حکومت تشکیل پاتی ہے، وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر بیٹی پڑھاؤ کے ساتھ ہی بیٹی کو پیدا ہونے دو پر بھی عمل کروائے گی –
(یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے)