تحریر: نیاز فاروقی
ریاست اُتر پردیش میں حال ہی میں ختم ہونے والے انتخابات میں 36 مسلمان امیدواروں نے ریاستی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ یاد رہے کہ 2017 میں ہونے والی آخری اسمبلی انتخابات میں جیتنے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد 24 تھی۔
ریاست میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والی سیاست کے بیچ 36 مسلمان امیدواروں کے منتخب ہونے کو مبصرین ایک ’حوصلہ افزا‘ علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ سبھی 36 امیدوار سماج وادی پارٹی (ایس پی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان ہی تھا۔ دیگر اہم جماعتیں مثلاً کانگریس، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)، راشٹریہ لوک دل اور اس کے علاوہ آزاد امیدوار صرف 37 نشستوں پر کامیاب ہو پائے ہیں۔
اسدالدین اویسی کی ’آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین‘ ان انتخابات میں مؤثر ثابت نہیں ہوئی اور یہ پارٹی ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق جیسے جیسے انڈیا کا سیاسی بیانیہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہو رہا ہے، ہندو ووٹرز تیزی سے بی جے پی کی طرف مائل ہو رہے ہیں، لیکن اترپردیش میں مسلمانوں کے ووٹ کانگریس، ایس پی اور بی ایس پی میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور مسلمان ووٹرز ایک مؤثر آواز بن کر سامنے آنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ریسرچ انسٹیٹیوٹ برائے سماجی علوم، سی ایس ڈی ایس، کے ایک ایگزٹ پولز کے نتائج کے مطابق اس الیکشن میں تقریباً 54 فیصد ہندوؤں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے اور 79 فیصد مسلمانوں نے ایس پی کو ووٹ دیا ہے۔
’دی کوئنٹ‘ نیوز ویب سائٹ کے پولیٹیکل ایڈیٹر آدتیہ نگم کا کہنا ہے کہ سنہ 2017 میں مسلمان امیدواروں کی فقط 24 سیٹیں تاریخ کی سب سے کم تعداد میں سے ایک تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم ووٹ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں تقسیم ہو گئے، یہاں تک کہ ان جگہوں پر بھی جہاں مسلمان جیت سکتے تھے نہیں جیت پائے۔ اس بار ایسا نہیں ہوا۔‘
بی جے پی کے فرقہ وارانہ مؤقف کی وجہ سے مسلمان اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے، لیکن اترپردیش میں ایس پی کے علاوہ بی ایس پی ایک اہم متبادل ہے۔ یہ پارٹی دلتوں کے حقوق کی نمائندگی کرتی ہے اور گذشتہ انتخابات میں مسلمانوں نے اسے بھی اچھی تعداد میں ووٹ دیا ہے۔ لیکن اس بار مسلمانوں کا ووٹ ایک حد تک یکطرفہ رہا اور ایس پی کو گیا۔ نگم کہتے ہیں کہ سنہ 2017 کے انتخابات میں ’مسلمان یو پی کے شہر مظفر نگر میں فسادات کی وجہ سے حکمران جماعت ایس پی سے ناخوش تھے۔ لیکن حالیہ الیکشن میں لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ بی ایس پی اور بی جے پی نے ڈیل کی ہوئی ہے۔‘
عظیم پریم یونیورسٹی کے پروفیسر عادل حسین کہتے ہیں کہ ساتھ ہی سنہ 2021 میں مغربی بنگال کے انتخابات (جس میں ممتا بینرجی کی ترنمول پارٹی نے بی جے پی کو شکست دی تھی) کے بعد مسلم کمیونٹی میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ایس پی وہ پارٹی ہے جو یو پی میں بی جے پی کو شکست دینے کا سب سے قابل عمل آپشن ہے۔ ’اس سے مسلمانوں کو ایک پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ مضبوط کرنے میں مدد ملی اور اس کا فائدہ ایس پی کو ہوا۔ لیکن سٹریٹجک طریقے سے دوسری پارٹیوں سے اتحاد، قیمتوں میں اضافہ اور کسانوں کا احتجاج بھی ایس پی کے لیے مددگار ثابت ہوا اور جس کا فائدہ مسلم امیدواروں کو بھی ہوا۔‘
نگم کہتے ہیں مغربی یو پی میں، جہاں مسلمان اور جاٹ معاشرے کی آبادی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے سنہ 2017 میں ان دونوں برادریوں نے مخالف طریقے سے ووٹ دیا تھا اور ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے مسلم نمائندوں کے تعداد میں کمی آئی تھی۔ اس وقت ہندو برادری نے مسلمانوں کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ اس بار وہ حالات نہیں ہے۔ جاٹ لوگوں نے مسلمانوں کو ووٹ دیا ہے اور مسلمانوں نے جاٹ امیدواروں کو ووٹ دیے۔‘ نگم کہتے ہیں کہ ’حالیہ انتخابات کا نتیجہ سنہ 2017 سے بہتر ہے، لیکن 2012 اور 2007 کے مقابلے میں اسے اچھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن موجودہ حالات میں بی جے پی کے مسلم مخالف بیانیے نے مسلم نمائندوں کا جیتنا مشکل کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں محض 36 ایم ایل ایز کا جیتنا بھی اہم ہے۔‘
عادل حسین اور ادتیہ مینن کے مطابق ان میں سے مسلمان کئی جگہوں سے جیت کر آئے ہیں جہاں صرف مسلم ووٹوں کی بنا پر سیٹ نہیں جیتی جا سکی تھی۔ کچھ غیر مسلم سماج کے حصے کے ووٹ بھی ملے ہیں، بھلے ہی وہ ایس پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو روایتی طور پر ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن پر پھر بھی مسلم نمائندوں کو ہندو ووٹ ملنا گذشتہ انتخاب کے مقابلے میں ایک طرح سے بہتری ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اسمبلی میں بہتر تعداد کے باوجود یہ نمائندے اُن مسائل کے حل میں مؤثر ثابت ہوں گے جو کہ فی الحال مسلم ووٹروں کی ترجیح ہیں یعنی تحفظ اور بہتر نمائندگی۔
عادل کا کہنا ہے کہ یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ یہ نمائندے کتنے مؤثر ہوں گے لیکن ’ظاہر ہے کہ یو پی کے مسلمان ایس پی کے پیچھے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس بار اُنھیں مضبوط اپوزیشن بنا دیا ہے۔ لیکن (یو پی کے وزیر اعلیٰ) یوگی ادتیہ ناتھ کے دور میں مسلمانوں کو پہلے ہی بہت زیادہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ابھی بھی یہ سلسلہ رُک نہیں رہا ہے۔‘
عادل کہتے ہیں، ’ایک لحاظ سے یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی بہتر ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے خاص طور پر اسمبلی میں نمائندگی بہت اہم مسئلہ ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’لیکن اہم سوال تو یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کے تحفظ کے لیے وسائل کو کس حد تک متحرک کر پائیں گے؟‘یو پی اور ملک میں اگلے اہم انتخابات میں سے ایک سنہ 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ یہ سوال اس وقت مزید اہم ہو گا۔
(بشکریہ: بی بی سی )