نئی دہلی:(وندنا مینن)
ایک پراسرار تحریر، عوام کے پیسے کے غلط استعمال کی علامت اور کہیں کوئی شور شرابہ نہیں۔ ایک ڈرامائی نئی رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکہ میں ہندوراشٹر کو کیسے فنڈ کیا جاتا ہے اور انہیںاپنے نظریے کو پھیلانےکے لئےکتنی رقم فراہم کی جاتی ہے۔
حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، رپورٹ میں تقریباً 24 تنظیموں کے نام درج ہیں جن کی کل مالیت کم از کم97.7 ملین ڈالرہے۔ ان تنظیموں میں خیراتی گروپس، تھنک ٹینکس، سیاسی سپورٹ گروپس اور اعلیٰ تعلیم پر کام کرنے والے ادارے شامل ہیں – یہ سبھی ہندوستان میں کسی نہ کسی طریقے سے ہندو گروپوں سے وابستہ ہیں۔
عوامی طور پر دستیاب وسائل پر مبنی تیار کی گئی یہ رپورٹ، امریکہ میں ان گروپ کے معاشی شراکت داروں کی تفصیلات بتاتی ہے جو امریکی تعلیم پر اثرانداز ہونے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت بھارتی حکومت کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کروڑوں خرچ کیے جا رہے ہیں۔
تقریباً 20 سالوں میں – 2001 سے 2019 تک – ان میں سے سات خیراتی گروپوں نے کم از کم158.9 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ رقم ہندوستان میں کام کرنے والے گروپوں کو بھیجی گئی۔ ان رقم کا تقریباً نصف، تقریباً 85.4 ملین ڈالر، 2014 اور 2019 کے درمیان خرچ کیا گیا تھا ۔
جہاں امریکہ میں ہندو گروپوں نے اس رپورٹ کو ’ناقابل اعتماد‘ قرار دیا ہے، وہیں دوسری طرف ہندو مخالف کارکنوں کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سامنے ہیں لیکن کوئی ان پر توجہ نہیں دے رہا۔
’ہندو نیشنلسٹ انفلوئنس ان دی یونائٹیڈاسٹیٹ، 2014-2021: دی انفراسٹرکچر آف ہندوتوا موبلائزنگ‘ کے عنوان سے رپورٹ جسا ماچار نے تصنیف کی ہے اور یہ ساؤتھ ایشین سٹیزن ویب پر دستیاب ہے۔ دراصل، یہ 2014 کی ایک رپورٹ پر تحقیق شدہ اپ ڈیٹ ہے، جسے کسی ایسے شخص نے لکھا ہے جو اپنے نام اور ای میل ایڈریس کے لیے JM نام کا استعمال کرتا ہے۔
اگر آپ مصنف کے بارے میں جاننے کے لیے گوگل کریں تو کوئی معلومات نہیں ملے گی، البتہ ان کی رپورٹ کا تذکرہ ضرور مل جائے گا۔
ہندو امریکن فاؤنڈیشن (HAF) نے ThePrint کو بھیجے گئے ایک ای میل کے جواب میں لکھا، ’’ہمیں یہ عجیب لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ساتھ کئی دیگر تنظیموںکی مبینہ بدانتظامی پر ایک فرضی نام سےرپورٹ لکھی گئی ہے، ایسامحسوس ہوتا ہےکہ اسے خالصتاً مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔‘
پیسہ کہاں سے آتا ہے
تو، پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ بیرون ملک مقیم مخیر حضرات، چندہ اکٹھا کرنے کی مہمات، دولت مند افراد کی طرف سے چلائی جانے والی فاؤنڈیشنز، اور خود امریکی ٹیکس دہندگان۔
ٹیکس ریکارڈ کے مطابق، بھوٹاڈا فیملی فاؤنڈیشن اور پورن دیوی اگروال فیملی فاؤنڈیشن جیسی تنظیموںنے، 2006 اور 2018 کے درمیان، HAF، ہندو سویم سیوک سنگھ (HSS)، وشو ہندو پریشد آف امریکہ (VHPA) اورایکل ودیالیہ فاؤنڈیشن آف یو ایس اے جیسی تنظیموںنے تقریباً 2 ملین ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عطیہ دہندگان کی نظریاتی رائے کو اس بنیاد پر نہیں مانا جا سکتا کہ انہوں نے ہندو غیر منافع بخش گروپوں کو چندہ دیا ہے،یہ فیملی فاؤنڈیشن کو چلانے والے لوگوں کی سنگھ سے وابستگی کو نشان زد کرتا ہے۔
الجزیرہ کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، دائیں بازو کے پانچ گروپس – یو ایس اے کی ایکل ودیالیہ فاؤنڈیشن، ایچ اے ایف، انفینٹی فاؤنڈیشن، سیوا انٹرنیشنل اور وی ایچ پی اے – نے امریکی فیڈرل کووڈ ریلیف فنڈ سے833,000 وصول کیے، جس کی ادائیگی امریکی ٹیکس دہندگان نے کی۔ HAF نے رپورٹر رقیب حمید نائیک ، ساتھ ہی رپورٹ میں نامزد دیگر افراد کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا، جن میں امریکہ میں مقیم ایک اور گروپ ہندو فار ہیومن رائٹس کے ارکان بھی شامل تھے۔ دی پرنٹ نے رپورٹ پر اپنے تبصروں کے لیے اس مضمون میں مذکور تنظیموں سے رابطہ کیا۔
دی پرنٹ کو ایک ای میل کیے گئے بیان میں لکھا،’ ایس اے ایف کےبارے میں( اس رپورٹ میں)تمام الزامات بے بنیاد ہیں ۔ HAF ایک مکمل طور پر آزاد، امریکی تنظیم ہے۔ اس کا امریکہ یا بیرون ملک کسی تنظیم یا سیاسی جماعتوں سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ HAF کا قیام دوسری نسل کے ہندو امریکیوں نے رکھی تھی۔ وہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ اور ہمارے کام اور پالیسی کا موقف ان کے لیے ہے۔‘
جاسا ماچار نے لکھا کہ قارئین کو دستاویز میں بیان کردہ حقائق اور اعداد و شمار سےجڑنا چاہیے۔ انہوں نے ایک ای میل میں لکھا، ’رپورٹ ایک ہی طرح کے کام کےپیٹرن کے بارے میںبتاتی ہے ، جن میں سےزیادہ قانونی ہے، لیکن ان لوگوں سےمتعلق ہیںجو جمہوریت کی قدر کرتے ہیں اور اس میں واضح طور پر شامل ماحولیاتی نظام کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں ۔ ‘وہ آگے لکھتے ہیں ،’ پیٹرن سنگھ گروپ کےبڑھتے سماجی اور سیاسی پروفائل کی وضاحت کرتا ہے، کیونکہ ہم سنگھ گروپ کے پیسے کو زیادہ سےزیادہ قبول کرنے اور اداروں و سیاسی حکام کے ذریعہ بنائےجارہے دباؤ کو دیکھ رہے ہیں ۔
ماچار کے مطابق، رپورٹ کے ہدف ناظرین امریکی حکومت کے اہلکار، ہندو قوم پرست منصوبوں کے تعاون کرنے والے اور مضبوط فنڈرز، اور مہاجر قوم پرستی کا مطالعہ کرنے والے ہیں۔ رپورٹ میں مزید تحقیقات میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔
اکیڈمک پروفیشنل آڈرے ٹرشکے نے دی پرنٹ کو لکھا، ’رپورٹ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ ہندو ذہنیت رکھنے والے گروپ ریاستہائے متحدہ میں طاقتور اور مالی طور پر مضبوط ہیں۔ اور ہندوستان میں ہندو قوم پرستانہ کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
نصابی کتاب کو دوبارہ لکھنے کی کوشش
پیسے کا استعمال کس لئے کیاجاتاہے،یہ سوال اب بھی مبہم ہے۔
اس کے یقینی مقاصد میں سے ایک امریکی تعلیمی نظام پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ ہندوؤں اور ہندو ازم کو پیش کرنے کے انداز کو تبدیل کرے۔
رپورٹ دو مواقع (2005اور 2016 میں)کی طرف اشارہ کرتی ہے ،جب HAF اور HSS سے وابستہ Uberoi Foundation for Religious Studies نے امریکی نصابی کتب سے لفظ ’دلت‘ کو ایڈٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔
Uberoi فاؤنڈیشن نے 2010 اور 2016 کے درمیان تعلیم پر کم از کم نصف ملین ڈالر خرچ کیے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان میں پبلک اسکول کی نصابی کتب پر اثر انداز ہونا، یونیورسٹی گرانٹس کا قیام، اساتذہ کی تربیت اور تحقیقی گرانٹس مختص کرنا شامل ہیں۔
Uberoi فاؤنڈیشن کی رقم میں سے کم از کم142,000 ڈالر- نصف ملین کی سب سے بڑی رقم – 2012 اور 2016 کے درمیان HAF کو دی گئی تھی۔ HAF نے ThePrint کو لکھا کہ انہوں نے Uberoi فاؤنڈیشن کی طرف سے گرانٹ کا استعمال تعلیمی کام کو آگے بڑھانے کے لیے کیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ امریکی تعلیمی نظام میں ہندو مذہب کی درست نمائندگی کی گئی ہے اور امریکی نصابی کتب میں سخت اور علمی طور پر تصدیق شدہ اسکالرشپ کی بنیاد پر اسے پینٹ کیا جائے۔
ایک اور گروپ، دھرما سولائزیشن فاؤنڈیشن (DCF) نے کم از کم تین یونیورسٹیوں میں تعلیمی پروگراموں کے لیے چندہ دینے کی کوشش کی۔ DCF نےساؤتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اسکول آف ریلیجن کو 3.24ملین ڈالر، گریجویٹ تھیولوجیکل یونین کو 4.4ملین ڈالر اور اروائن میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کو 6 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ طلباء نے اس گروپ کو ہندو قوم پرستی سے منسلک ہونے کا شبہ ظاہر کیا اور اس پر سوالات اٹھائے، جس کے بعد اس یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے 6ملین کے عطیہ کولینے سے انکار کردیا۔
امریکہ میں ہندو امریکی طلباء کے تجربات بھی تشویش کا باعث معلوم ہوتے ہیں – ہندو ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے ہندو طلباء کے خلاف کیجانے والی بلنگ کو امریکی نصابی کتب میںہندو دھرم کی تصویر کشی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ دی ہندو ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایچ ایسایس کا ایک پروجیکٹ ہے-2011 سے2019 تک کے ٹیکس ریٹرن میں کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم ‘ہندو ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے طور پر کاروبار کر رہی ہے۔‘
دی پرنٹ کو ایک ای میل میں، HSS نے کہا کہ یہ ’اسٹیٹ آف امریکہ کے قانونوں کے تحت منظم ایک آزاد 501 ( سی ) (3) غیر منافع بخش تنظیم ہےاور اس کا مشن ’ ہندو امریکیوں کو ایک ساتھ لانا ہے، ہم آنے والی نسلوں کے لئے ہندو ثقافت اور اپنی مقامی کمیونٹیز میں حصہ ڈالتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔
HSS نے لکھا، ‘ہمیں یقین ہے کہ آپ نے جس رپورٹ کا حوالہ دیا ہے وہ HSS اور دیگر ہندو تنظیموں کے خلاف سیاسی طور پر اثرانداز ہے۔ اس طرح کی رپورٹیں اور اتحاد کی ہندو مخالف سرگرمیاں امریکہ میں مقامی ہندوؤں کے خلاف بڑھتے ہوئے ہندو فوبیا اور نفرت انگیز جرائم کی جڑ ہیں۔
’ہندوتوا‘ کے ساتھ ’ہندوفوبیا‘ سے لڑنا
یہاں تک کہ امریکہ میں بھی شناخت پر مبنی گروہوں کے درمیان لڑائی جاری ہے – ایک وہ جو ہندوتوا کو ختم کرنا چاہتا ہے اور دوسرا جو ہندو فوبیا کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔ دونوں کیمپ بھارت کی سیاست میں آمنے سامنے ہیں۔
ایک اور حالیہ تنازع 2021 کے کنونشن پر تھا جس کا عنوان تھا ہندو قوم پرستی، عالمی ہندوتوا کو ختم کرنا: کثیر الجہتی تناظر۔ امریکہ میں ہندو گروپوں کی وجہ سے شرکاء اور منتظمین کی طرف سے کافی منفی ردعمل سامنے آیا، کچھ شرکاء نے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد اس سے دستبردار ہونے کا انتخاب کیا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والی یونیورسٹیوں کو دس لاکھ سے زائد ای میلز بھیجی گئیں اور ان پر کانفرنس بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
یہ واضح طور پر ’ہندو فوبک‘ تھا
انڈیا ایکسپلائنڈ پوڈ کاسٹ کے اکیڈمک اور شریک بانی روہت چوپڑا کے مطابق ’ہندو فوبیا‘ کا لفظ بطور ہتھیار استعمال ہو رہا ہے۔ اب بھی ذات پات کا ذکر کرنا ہندو مخالف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہندو ازم اور ہندوستان سے متعلق کسی بھی چیز پر تنقید کرنا اب ہندو فوبک سمجھا جا سکتا ہے۔‘
(بشکریہ : دی پرنٹ ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)