تحریر:ریحان فضل
مشہور تاریخ دان کرنل مارک ولکس لکھتے ہیں کہ ’ٹیپو سلطان قد میں والد حیدر علی سے چھوٹے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ وہ عام سے دکھتے تھے اور وزن میں ہلکے کپڑے پہنتے تھے اور اپنے ساتھ رہنے والوں سے بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہتے تھے۔ ان کو بیشتر گھوڑے پر سوار دیکھا جاتا تھا۔ وہ گھڑسواری کو بہت بڑا فن مانتے تھے اور اس میں انھیں مہارت بھی حاصل تھی۔ انھیں ڈولی میں سفر کرنا سخت ناپسند تھا۔‘
ٹیپو سلطان کی شخصیت کی ایک جھلک برٹش لائبریری میں رکھی ایک کتاب ’این اکاوٴنٹ آف ٹیپو سلطان کورٹ‘ میں بھی ملتی ہے جس کی تفصیلات ان کے منشی محمد قاسم نے ان کی وفات کے بعد ایک انگریز تاریخ دان کو دی تھیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ’ٹیپو درمیانے قد کے تھے، ان کا ماتھا چوڑا تھا۔ وہ سلیٹی رنگ کی آنکھوں، اونچی ناک اور پتلی کمر کے مالک تھے۔ ان کی مونچھیں چھوٹی تھیں اور داڑھی مکمل طور پر صاف تھی۔‘
لندن کے وکٹوریا اینڈ ایلبرٹ میوزیم میں ان کی ایک پینٹنگ ہے جس میں وہ ہرے رنگ کی پگڑی پہنے ہوئے ہیں۔اس میں ایک روبی اور موتیوں کی لڑی پروئی ہوئی ہے۔ انھوں نے ہرے رنگ کا جامہ پہن رکھا ہے جس میں شیر جیسی دھاریوں والا کمربند بھی ہے۔ بازو میں ایک بیلٹ میں لال میان کے اندر ایک تلوار لٹک رہی ہے۔
سرنگا پٹم میں 45 ہزار انگریز فوجیوں کا حملہ
14 فروری سنہ 1799 کو جنرل جارج ہیرس کی رہنمائی میں 21 ہزار فوجیوں نے ویلور سے میسور کی جانب کوچ کیا۔ 20 مارچ کو امبر کے نزدیک 16 ہزار فوجیوں کا ایک دستہ ان کے ساتھ آ ملا۔ اس میں کنور کے قریب جنرل سٹوئرٹ کی کمان میں 6420 فوجیوں کا دستہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ان سبھی نے مل کر ٹیپو سلطان کے سرنگا پٹم کے قلعے پر چڑھائی کر دی تھی۔
مشہور تاریخ دان جیمس مل اپنی کتاب ’دا ہسٹری آف برٹش انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ وہی ٹیپو سلطان تھے جن کی آدھی سلطلنت پر چھ برس قبل انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ان کے پاس جو زمین بچی تھی اس سے انھیں سالانہ ایک کروڑ روپے سے تھوڑی زیادہ آمدنی ہوتی تھی، جبکہ اس وقت انڈیا میں انگریزوں کو ملنے والا کُل زرِ مبادلہ نوے لاکھ پاوٴنڈ یعنی نو کروڑ روپے تھا۔‘ آہستہ آہستہ انھوں نے سرنگا پٹم کے قلعے کو گھیر لیا اور تین مئی 1799 کو توپوں سے حملہ کر کے اس کی صدر دیوار میں سراخ کر دیا۔
ٹیپو کی فوج نے غداری کی
ایک اور تاریخ دان لشنگٹن اپنی کتاب ’لائف آف ہیرِس‘ میں لکھتے ہیں ’حالانکہ سوراخ زیادہ بڑا نہیں تھا، تو بھی جارج ہیرِس نے اپنے فوجیوں کو اس کے ذریعہ قلعے کے اندر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اصل میں ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘’ان کی فوج بھوکی تھی۔ بعد میں ہیرس نے کیپٹن میلکم کے سامنے خود قبول کیا کہ میرے خیمے پر تعینات انگریز گارڈ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اگر اسے دھکا دیا جاتا تو وہ نیچے گر جاتا۔‘
تین مئی کی رات تقریباً پانچ ہزار فوجی جن میں قریب تین ہزار انگریز تھے خندقوں میں چھپ گئے تاکہ ٹیپو کی فوج کو ان کی سرگرمی کا پتا نہ لگے۔ جیسے ہی حملے کا وقت نزدیک آیا ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والے شخص میر صادق نے فوجیوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے بلایا۔ ایک اور تاریخ دان میر حسین علی خان کرمانی نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں کرنل مارک ولکس کے حوالے سے لکھا ہے ’ٹیپو کے ایک کمانڈر ندیم نے تنخواہ کا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔ اس لیے دیوار کے سراخ کے پاس تعینات فوجی بھی اس کے پیچھے چل دیے۔ اسی وقت انگریزوں نے پیچھے سے حملہ بول دیا۔‘
اس درمیان ٹیپو کے ایک بہت وفادار کمانڈر سعید غفار انگریزوں کی توپ کے گولے سے ہلاک ہو گئے۔کرمانی لکھتے ہیں کہ جیسے ہی غفار کی موت ہوئی، قلعے سے غدار فوجیوں نے انگریزوں کی جناب سفید رومال ہلانے شروع کر دیے۔
یہ پہلے سے طے تھا کہ جب ایسا کیا جائے گا تو انگریز فوج قلعے پر حملہ بول دے گی۔ جیسے ہی سگنل ملا انگریز فوج نے دریا کے کنارے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا جو وہاں سے صرف سو گز کے فاصلے پر تھا۔دریا بھی محض 280 گز چوڑا تھا اور کہیں ٹخنے تک پانی تھا تو کہیں کمر تک۔
میجر الیگزانڈر ایلن اپنی کتاب ’این اکاوٴنٹ آف دا کیمپین ان میسور‘ میں لکھتے ہیں ’حالانکہ انگریزوں کی آگے بڑھتی ہوئے فوج کو قلعے سے بڑی آسانی سے توپوں کا ہدف بنایا جا سکتا تھا، پھر بھی خندقوں سے نکل کر انگریز فوجی محض سات منٹ کے اندر قلعے کی دیوار کے سراخ سے داخل ہو کر برطانوی جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔‘
ٹیپو سلطان خود جنگ میں کودے
سراخ پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد برطانوی فوج دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ بائیں جانب بڑھنے والی فوج کو ٹیپو سلطان کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو کی فوج کے ساتھ دست بدست مقابلے میں اس دستے کی رہنمائی کرنے والے کرنل ڈنلپ کی کلائی پر تلوار سے گہرا زخم لگا۔ اس کے بعد کالم کے دستے کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ٹیپو کے فوجی کامیاب رہے۔ ٹیپو سلطان اپنی فوج کی ہمت بندھانے خود جنگ میں شامل ہو چکے تھے۔
ڈنلپ کی جگہ لیفٹیننٹ فارکیوہار نے لی۔ لیکن وہ بھی جلد ہلاک ہو گئے۔ چار مئی کی صبح ٹیپو نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کی دیوار میں ہونے والے سوراخ کا معائنہ کیا اور اس کی مرمت کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ غسل کے لیے چلے گئے۔ کرمانی لکھتے ہیں کہ ’صبح ہی ان کے نجومی نے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ دن ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس لیے شام تک انھیں اپنی فوج کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔‘ غسل کے بعد ٹیپو نے غریبوں میں پیسے بانٹے۔
چیناپٹنا کے ایک پجاری کو انھوں نے ایک ہاتھی، تِل کی ایک بوری اور دو سو روپے دیے۔ دیگر براہمنوں کو ٹیپو نے کالی بکری، کالے کپڑوں سے بنی ایک پوشاک اور نوے روپے کے علاوہ تیل سے بھرا ایک برتن بھی دیا۔ اس سے قبل انھوں نے لوہے کے برتن میں رکھے ہوئے تیل میں اپنا سایہ دیکھا۔ اُن کے نجومی نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے ان پر آنے والی مصیبت ٹل جائے گی۔
انھوں نے محل میں واپس لوٹ کر رات کا کھانا کھایا۔ کھانا شروع ہی کیا تھا کہ انھیں اپنے کمانڈر سعید غفار کے ہلاکت سے متعلق خبر ملی۔ غفار قلعے کے مغربی سرے کی حفاظت کے لیے تعینات فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ لیفٹیننٹ کرنل الیکزانڈر بیٹسن اپنی کتاب ’اے ویو آف دا اوریجن اینڈ کنڈکٹ آف دا وار ود ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں ’ٹیپو یہ خبر سنتے ہی کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے۔‘ انھوں نے ہاتھ دھوئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس جگہ کی جانب نکل پڑے جہاں دیوار میں سوراخ ہوا تھا۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی انگریزوں نے وہاں اپنا جھنڈا لہرا دیا تھا اور قلعے کے دوسرے علاقوں کی جانب بڑھنا شروع ہو چکے تھے۔
ٹیپو کو گولی لگی اور گھوڑا بھی مارا گیا
بیٹسن آگے لکھتے ہیں ’اس جنگ میں ٹیپو نے زیادہ تر لڑائی عام فوجیوں کی طرح پیدل ہی لڑی۔ لیکن جب ان کے فوجیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی ہمت بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔‘ مارک ولکس لکھتے ہیں کہ ’اگر ٹیپو چاہتے تو جنگ کے میدان سے بھاگ سکتے تھے۔ اس وقت قلعے کے کمانڈر میر ندیم قلعے کے گیٹ کی چھت پر کھڑے تھے لیکن انھوں نے اپنے سلطان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔‘
ٹیپو تب تک زخمی ہو چکے تھے۔
جب ٹیپو قلعے کے اندرونی گیٹ کی جانب بڑھے تو ان کے بائیں سینے سے ایک گولی نکل گئی۔ ان کا گھوڑا بھی مارا گیا۔ ان کے ساتھیوں نے انھیں ڈولی پر بٹھا کر جنگ کے میدان سے باہر لے جانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ کیوںکہ تب تک وہاں لاشوں کا ڈھیر لگ چکا تھا۔
میجر ایلکزانڈر لکھتے ہیں کہ ’اس وقت ان کے باڈی گارڈ راجا خان نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ انگریزوں کو بتا دیں لیکن ٹیپو کو یہ نامنظور تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں قید کیے جانے کے بجائے موت کے راستے کا انتخاب کیا۔‘ ٹیپو سلطان کے آخری لمحات کے بارے میں بیٹسن لکھتے ہیں ’تبھی کچھ انگریز فوجی قلعے کے اندرونی گیٹ میں داخل ہوئے۔‘
’ان میں سے ایک نے ٹیپو کی تلوار کی بیلٹ چھیننے کی کوشش کی۔ تب تک ٹیپو کا کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ تقریباً بے ہوش ہو گئے تھے۔ تب بھی انھوں نے اپنی تلوار سے اس فوجی پر حملہ کیا۔‘ ’پھر انھوں نے اسی تلوار سے ایک اور انگریز فوجی کے سر پر وار کیا۔ اسی درمیان ایک اور انگریز فوجی نے ٹیپو پر حملہ کر دیا۔ وہ ان سے جواہرات جڑی تلوار چھیننا چاہتا تھا۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ ان پر کس نے تلوار چلائی تھی۔‘
انگریز نہیں جانتے تھے کہ ٹیپو سلطان کی موت ہو چکی ہے۔ وہ انھیں ڈھونڈنے محل کے اندر گئے۔ پتا چلا کہ ٹیپو وہاں نہیں ہیں۔ ٹیپو کا ایک سپہ سالار انھیں اس مقام پر لے گیا جہاں ٹیپو گرے تھے۔ وہاں ہر طرح لاشیں اور زخمی فوجی پڑے ہوئے تھے۔
مشعل کی روشنی میں ٹیپو سلطان کی ڈولی نظر آئی۔ اس کے نیچے ٹیپو کے باڈی گارڈ راجا خان زخمی حالت میں پڑے تھے۔ انھوں نے اس طرف اشارہ کیا جہاں ٹیپو گرے تھے۔ بعد میں میجر ایلن نے لکھا ’جب ٹیپو کی لاش کو ہمارے سامنے لایا گیا تو ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔‘ ان کا جسم اتنا گرم تھا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے اور کرنل ویلیزلی کو ایسا لگا کہ کہیں وہ زندہ تو نہیں۔ لیکن جب ہم نے ان کی نبض دیکھی اور دل پر ہاتھ رکھا تو ہمارا شک دور ہوا۔ ان کے جسم پر تین اور ایک زخم ماتھے پر تھا۔
ایک گولی ان کے داہنے کان سے داخل ہو کر بائیں گال میں دھنس گئی تھی۔ انھوں نے بہترین سفید لینن کا جامہ پہن رکھا تھا جس کی کمر کے ارد گرد ریشمی کپڑے کی گوٹ لگی تھی۔ ان کے سر پر پگڑی نہیں تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جنگ کے دوران گر گئی ہو۔ ایک بازو بند کے علاوہ جسم پر کوئی زیورات نہیں تھے۔ وہ بازوبند اصل میں ایک چاندی کا تعویز تھا جس کے اندر عربی اور فارسی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔
جنرل بیئرڈ نے ٹیپو کی لاش کو انھیں کی ڈولی میں رکھنے کا حکم دیا۔ دربار کو پیغام بھیجا گیا کہ ٹیپو سلطان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی لاش پوری رات ان کے دربار میں رکھی گئی۔‘
حیدر علی کی قبر کے بغل میں دفن
اگلے دن شام کو محل سے ٹیپو سلطان کا جنازہ نکلا۔ ان کے جنازے کو ان کے ذاتی ملازمین نے اٹھایا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ انگریزوں کی چار کمپنیاں بھی چل رہی تھیں۔
برطانیہ کی ’نیشنل لائبریری آف سکاٹ لینڈ‘میں رکھی دستاویزات کے مطابق ‘جرنل آف دا وار وِد ٹیپو‘ میں لکھا ہے ‘ان کے جنازے کے ٹھیک پیچھے شہزادہ عبد الخلیق چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے دربار کے اہم اہلکار تھے۔ جن سڑکوں سے جنازہ گزرا، ان کے دونوں طرف بھیڑ تھے۔ لوگ زمین پر لیٹ کر جنازے کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ لوگ زور زور سے رو رہے تھے۔ انھیں لال باغ میں ان کے والد حیدر علی کی قبر کے بغل میں دفنایا گیا۔‘
اس کے بعد ٹیپو سلطان کے جنازے میں شریک افراد کو پانچ ہزار روپے بانٹے گئے۔ بیٹسن نے لکھا کہ ’رات ہوتے ہوتے ماحول اور زیادہ غمزدہ ہو گیا جب بادلوں کی گرج کے ساتھ زبردست آندھی چلی۔ اس آندھی میں دو انگریز اہلکار ہلاک ہو گئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔‘
ٹیپو سلطان کی تلوار
ٹیپو سلطان کے مرنے کے بعد انگریز فوجیوں نے سرنگا پٹم کو بُری طرح لوٹا۔ پھر بھی ٹیپو کا تخت، ہاتھی پر بیٹھنے کی چاندی کی سیٹ، سونے اور چاندی سے بنی پلیٹیں جواہرات سے جڑے تالے اور تلواریں، مہنگے قالین، ریشم کے بہترین کپڑے اور جواہرات سے بھرے بیس بکسے عام فوجیوں کے ہاتھ نہیں لگے۔
ٹیپو کی بہترین لائبریری کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا جس میں تاریخ، سائنس اور احادیث کے بارے میں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں میں دو ہزار سے زیادہ کتابیں تھیں۔ انگریز فوج کی جانب سے ایک ہیرے سے بنا ستارا اور ٹیپو کی تلوار ویلیز لی کو پیش کی گئی۔ میجر ایلکزانڈر ایلن نے اپنی کتاب ‘این اکاوٴنٹ آف دا کیمپین ان میسور میں لکھا ہے کہ ہیرس نے ٹیپو کی ایک اور تلوار بیئرڈ کو تحفے میں دے دی اور سلطان کے تخت میں جڑے شیر کے سر کو ونڈسر کاسل کے خزانے میں بھیج دیا گیا۔
ٹیپو سلطان اور موراری راوٴ کی ایک ایک تلواریں لارڈ کارنوالس کے پاس یادگار کے طور پر بھیج دی گئیں۔تب تک انگریزوں کا سامنا انڈیا میں ٹیپو جیسے بادشاہ سے نہیں ہوا تھا۔ ٹیپو کے بعد انگریزوں کو جنگ میں چیلینج کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔
ایک انگریز صحافی پیٹ آبیر نے اپنی کتاب ’رائز اینڈ پروگریس آف برٹش پاور ان انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ ’ٹیپو کی شکست کے بعد مشرق کی پوری سلطنت ہمارے قدموں میں آگری۔‘
(بشکریہ : بی بی سی اردو)