تحریر: احمد قاسم
’26 فروری 2020 میری زندگی کا سب سے مشکل دن تھا، ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ پلٹ گیا ہے، یہ وہی عدالتیں ہیں، جہاں میں عام دنوں میں آیا کرتی تھی، کیونکہ میں خود بھی اس پیشے (وکالت) سے وابستہ ہوں، گرفتاری کے دو دن بعدمجھے معلوم ہوا کہ مجھ پر فساد کا الزام لگایا گیا ہے۔
دسمبر 2019 میں مودی سرکار کے ذریعہ منظور متنازع شہریت قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر مخالف مظاہروں کے دوران 31 سالہ عشرت جہاں کو فروری 2020 میں دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا، جہاں پیشے سے وکیل ہیں اور مشرقی دہلی کے خوریجی علاقے سے کونسلر بھی رہی ہیں، وہ خوریجی کے علاقے میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج کا بھی ایک حصہ تھیں، 14 مارچ کو، دو سال بعد، دہلی کی ایک نچلی عدالت نے عشرت جہاں کو ضمانت پر رہا کیا۔
دہلی فسادات اور یو اے پی اے میں ملوث ہونے کا الزام
عشرت جہاں بتاتی ہیں کہ 26 فروری 2020 کو دوپہر میں انہیں فون آیا کہ پولیس خوریجی پروٹسٹ سائٹ کو ہٹا رہی ہے انہیں وہاں پہنچنا چاہئے ۔وہ کہتی ہیں، ’’اس دن مجھے بخار تھا، لیکن مجھے فون آیا کہ پولیس خوریجی پروٹسٹ سائٹ کو ہٹا رہی ہے۔ میں جب وہاں پہنچی تو پولیس پروٹسٹ سائٹ کو توڑ رہی تھی ،پوری سڑک پر سناٹا تھا، میں یہ سب دیکھ حیران رہ گئی۔ اچانک سے ایک پی سی آر وین آئی اور مجھے اس میں زبردستی بیٹھایا گیا ۔ میں اپنی گرفتاری کی وجہ جاننا چاہتی تھی، گرفتاری کے دو دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے اوپر فساات کا الزام لگادیا گیا ہے ۔
دہلی پولیس نے پہلے ان پر فسادات اور غیر قانونی اجتماع اور بعد میں دارالحکومت میں مذہبی فسادات بھڑکانے کی مبینہ سازش کا حصہ بننے کا الزام لگایا تھا۔
’دہشت گرد‘ اس سے دور رہو
عشرت جیل کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اسے جیل انتظامیہ کے انتہائی سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا، جیل انتظامیہ نے دیگر قیدیوں کو خبردار کیا کہ وہ ان سے دور رہیں کیونکہ وہ سنگین دفعات کے تحت جیل میں ہیں اور دہشت گرد ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب مجھے منڈولی جیل لے جایا گیا تو وہاں مجھے بہت ٹوٹا ہوا محسوس ہوا جس دوران میری تلاشی لی گئی، یہ سب سے برا وقت تھا، مجھے شروعات کے تین دن تک سخت حفاظتی انتظامات میں رکھا گیا، میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ایسا کیوں تھا؟ دوسرے لوگوں سے الگ رکھا جا رہا تھا، تقریباً دو ماہ سے کسی کو مجھ سے ملنے نہیں دیا گیا، جب آہستہ آہستہ میں وہاں دوسرے قیدیوں سے ملنے لگی تب وہ بتاتے تھے کہ ہمیں جیل انتظامیہ کے ذریعہ ملنے سے منع کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ لڑکی ایک دہشت گرد ہے ۔ 25 مہینے میرے لئے وہاں ہر وقت ڈر کاماحول رہا ۔
کیا میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں نے غلط پالیسی کی مخالفت کی؟
عشرت جہاں نے اپنی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج میری رہائی کے بعد وہ 17 ہزار صفحات کی چارج شیٹ بے کار ہوگئی، مجھ پر ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا، کیا احتجاج پر جانا اور آواز اٹھانا غلط ہے؟ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں احتجاج کی آواز کو دبانے کے لیے ایسے اندھے قوانین بنائے گئے ہیں جو آپ کے گلے میں ڈال دیے جاتے ہیں، جیلوں میں جتنے بھی بے گناہ لوگ ہیں، سب کے ساتھ غلط کیا جا رہا ہے۔
نظمیں لکھ کر مشکل وقت گزرا
اپنے جیل کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے عشرت کہتی ہیں، ’جب میں نے پہلی بار جیل میں بارش دیکھی تو مجھے اپنا گھر بہت یاد آیا، گھر کا کھانا، ابو کے ساتھ جھولے پر بیٹھنا، بہنوں کے ساتھ گھومنا ، سب یاد آتا تھا، میں کوئی شاعر نہیں تھی، لیکن اس بارش کو دیکھ کر کچھ احساس صفحات پر اتارنے کا من ہوا ،میں نے جیل سے اپنی پہلی نظم بارش پر لکھی۔ ایک دیوار مجھے اپنے بیرک سے نظر آتی تھی، اس پر بھی میں نے نظم لکھی۔ اپنی امی کی یاد میں لکھیا،میںنے ایک ڈائری بھی بنائی، یہ ایک الگ احساس تھا۔‘
پریوار نے کبھی مایوس نہیں کیا
عشرت جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی ذہنی صحت کے بارے میں بتاتی ہیں کہ اس دوران وہ کئی بار ٹوٹتی رہی لیکن گھر والوں نے ان کا ہر طرح سے ساتھ دیا، ’’میں اپنے پریوار کا قرض کبھی نہیں ادا کر سکوں گی، جیسا کہ میری ماں بہنوں اور میرے شوہر نے ساتھ دیا۔ یہ میری سب سے بڑی طاقت تھی،یو اے پی اے جیسی دفعہ لگا دئے جانے کے بعد میں بالکل ڈر گئی تھی لیکن میرے پریوار نے مجھے حوصلہ دیا ۔
ہماری تحریک صرف اقلیتوں کے لیے نہیں تھی، یہ لڑائی ہر اس شہری کی تھی جسے شہریت ثابت کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ آئین کو بچانے کی ضرورت ہے، ہماری لڑائی آئین کو بچانے کی تھی۔ عشرت اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ‘میرے والد نے ہمیشہ مجھے ملک سے محبت کرنا سکھایا، اس ملک کو ہمارے پریوار نے آزادی کے وقت چنا تھا، آج جو ماحول بنایا جا رہا ہے اس میں لڑنے اور جیتنے کی ضرورت ہے۔
جیل سے رہائی کے بعد سیاسی وابستگی کے سوال پر عشرت جہاں کا کہنا ہے کہ ‘سیاست ہمیشہ میرے لیے ایک پلیٹ فارم رہا ہے جس کے ذریعے میں عوام کی خدمت کرتی رہی ہوں، 2012 میں الیکشن جیت کر اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کی، مستقبل میں بھی۔ اسی طرح عوام کے درمیان رہوں گی اور کام کرتی رہوں گی۔