تحریر: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
بعض حضرات خواتین کی مسجد میں حاضری کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں _ اس کے حق میں وہ جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک دلیل ام المومنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول بھی ہوتا ہے : لَوْ أدْرَكَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ما أحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ المَسْجِدَ (بخاري : 869 ، مسلم : 445)’’جو کچھ عورتوں نے اب کرنا شروع کردیا ہے ، اگر اللہ کے رسول ﷺ اسے دیکھ لیتے تو انہیں مسجد جانے سے روک دیتے _‘‘
ام المؤمنین کا اشارہ اس جانب تھا کہ آج کل عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت خوش بو لگاتی اور زیب و زینت اختیار کرتی ہیں ، مسجد میں آتے وقت بھی ایسا کرتی ہیں ، حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے گھر سے باہر نکلتے وقت ایسا کرنے سے منع کیا ہے _ گھر سے باہر نکلنا ، چاہے جس کام سے ہو ، یہاں تک کہ باجماعت نماز پڑھنے کی غرض سے مسجد آنے کے لیے ہو ، لیکن اس موقع پر عورت کے لیے ‘’تزیّن‘ اور ’تعطّر‘ (یعنی زیب و زینت اختیار کرنا اور خوش بو لگانا) جائز نہیں ہے _۔
ام المؤمنين کا مقصد عورتوں کو مسجد آنے سے روکنا نہیں ، بلکہ مسجد آتے وقت خوش بو لگانے اور بناؤ سنگھار کرنے سے روکنا تھا _ اگر انہیں مسجد سے روکنا مقصد ہوتا تو ضرور ان سے اس کی صراحت منقول ہوتی ، بلکہ ان کا عمل اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے _ وہ خود برابر نماز باجماعت کے لیے مسجد جاتی رہیں اور انھوں نے اپنے خاندان کی لڑکیوں اور دوسری خواتین کو کبھی مسجد جانے سے نہیں روکا _۔
دوسری طرف اللہ کے رسول ﷺ نے مَردوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا : لا تَمْنَعُوا إماءَ اللهِ مَساجِدَ اللَّهِ (مسلم : 442)’’اللہ کی باندیوں (یعنی عورتوں) کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے نہ روکو _‘‘
عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ ہی میں نہیں ، بلکہ بعد کی ابتدائی صدیوں میں بھی اس حکمِ نبوی پر عمل ہوتا رہا _ مسجدِ حرام ، مسجدِ نبوی ، مسجد اقصٰی ، مسجد اموی (دمشق) اور دوسری مساجد میں نماز اور تعلیم کے لیے خواتین کی حاضری جاری رہی ، لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اس پر عمل موقوف ہوتا گیا _ اس حکم کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے معقول نظم ہوتا اور خواتین کو آزادی ہوتی _ ان میں سے جو چاہتیں مسجد میں آتیں اور جو چاہتیں ، ارشادِ نبوی : ’’خواتین کا اپنے گھروں میں نماز پڑھنا بہتر ہے ‘‘ ( صحيح الجامع : 7458) پر عمل کرتے ہوئے گھروں ہی میں نماز پڑھتیں، لیکن اس کے بجائے مسجدوں میں خواتین کے لیے کچھ انتظامات ہی نہیں کیے گئے _ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مَردوں نے (اور مساجد کے منتظمین مَرد ہی ہوتے ہیں) اللہ کے رسولﷺ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی ہے _۔
آج کل گھروں میں دینی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام نہیں ہے ، جب کہ مسجدوں میں وقتاً فوقتاً وعظ و ارشاد کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں ، قرآن و حدیث کے دروس ہوتے ہیں ، مختلف مناسبتوں سے دینی موضوعات پر تقریریں ہوتی ہیں ، ہر ہفتہ نماز جمعہ کے موقع پر مقامی زبان میں خطبۂ جمعہ یا الگ سے تقریر ہوتی ہے _ اگر ان مواقع پر خواتین کی مسجدوں میں حاضری کی سبیل نکالی جائے تو ان کی بھی دینی و اخلاقی تربیت ہوسکتی ہے _۔
ام المؤمنین نے اپنے زمانے کی عورتوں کو دیکھ کر فرمایا تھا : ’’اگر اللہ کے رسول ﷺ آج کی عورتوں کو دیکھ لیتے تو انہیں مسجد جانے سے روک دیتے _‘‘
ام المؤمنین اگر آج کی عورتوں کو دیکھ لیتیں تو ضرور ان کا احساس بدل جاتا اور ان کی دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت اور مساجد کے ذریعے اس کی تکمیل کی صورتِ حال کو دیکھ کر وہ کہہ اٹھتیں کہ ’ اگر اللہ کے رسول ﷺ آج کی عورتوں کو دیکھ لیتے تو انہیں ضرور مسجد جانے کو کہتے _۔‘