نئی دہلی:(جاوید اختر)
’اگنی پتھ‘ اسکیم کے خلاف طلبہ اور نوجوانوں کے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ اب بہار کے بعد اترپردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ کے مختلف اضلاع کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ مظاہرین نے کئی مقامات پر آتش زنی اور توڑ پھوڑ کی، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا، ٹرینوں کی آمدورفت کو روک دیا اور قومی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے انہیں ایک بار پھر بے وقوف بنایا ہے، ’’اگر ہماری تقرری ہو بھی گئی تو چار برس بعد ہم کیا کریں گے؟‘‘
دوسری طرف تشدد پر قابو پانے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل داغنے پڑے۔ انتظامیہ نے حالات قابو میں ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
مودی حکومت نے دو روز قبل بھارتی فوج میں شامل ہونے کے لیے ‘اگنی پتھ‘ نامی اس اسکیم کا اعلان کیا تھا۔ اس اسکیم پر ابتدا میں ہی دفاعی امور کے متعدد ماہرین نے شبہات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم اب مختلف حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت کا سلسلہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ سابق فوجی افسران کا کہنا ہے کہ چار برس کی مدت ملازمت سے نہ صرف ملک کے خاطر لڑنے اور قربان ہونے کا جذبہ متاثر ہو گا بلکہ اس کے منفی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں اگنی پتھ کے خلاف
سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنے اہم معاملے میں مودی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے صلاح و مشورے کے بغیر ہی اپنے فیصلے کا یک طرفہ طور پر اعلان کر دیا۔
کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے حکومت کی نکتہ چینی کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ’’جب بھارت کو دو محاذوں پر خطرات کا سامنا ہے، اگنی پتھ کی غیر ضروری اسکیم ہمارے مسلح افواج کی آپریشنل صلاحیتوں کو کم کر دے گی۔ بی جے پی حکومت کو ہماری فورسز کے وقار، روایات، جرأت اور نظم و ضبط سے مصالحت کرنا بند کر دینا چاہیے۔‘‘
بائیں بازو کی جماعت سی پی ایم کے رہنما سیتارام یچوری نے کہا، ’’ایک پیشہ ور فوج بنانے کے بجائے مودی حکومت نے ‘ٹھیکے پر فوجیوں‘ کی تجویز پیش کی ہے تاکہ پینشن کے پیسے بچا لیے جائیں۔ چار برس کے بعد ان کے پاس پرائیوٹ ملیشیا کی خدمت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہو گا۔ اس ملک دشمن اسکیم کو ختم کریں۔‘‘
راشٹریہ جنتادل، راشٹریہ لوک دل اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اگنی پتھ اسکیم کی مخالفت کی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان ورون گاندھی نے بھی ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ اس اسکیم کے حوالے سے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات اور شبہات ہیں۔
آگ سے کھیلنے کے مترادف
متعدد سابق اعلی فوجی افسران اور دفاعی امور کے ماہرین نے بھی اگنی پتھ کے تحت چار برس کے لیے’’اگنی ویروں‘‘ کی تقرری کی افادیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے سول سوسائٹی میں قانون و انتظام کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے تحت ہتھیاروں کی تربیت حاصل کر چکے اور ہر سال ملازمت سے محروم کر دیے جانے والے 35000 سے زائد نوجوانوں کی وجہ سے سماج میں عسکریت پسندانہ رجحانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
بھارتی تجزیہ نگار پرتاپ بھانو مہتا کہتے ہیں اس اسکیم کے سماج کے لیے مضمرات ہو سکتے ہیں، ’’یہ بہت ہی نازک معاملہ ہے۔ اگر آرمی کی مراعات والی ملازمت ختم ہونے کے بعد اس طرح کی کوئی سول ملازمت نہیں ملتی ہے تو نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسی بہت ساری مثالی موجود ہیں کہ فوجیوں کو قبل از وقت ملازمت سے نکال دینے کے نتیجے میں وہ سماج میں عسکریت پسندانہ رححانات کے فروغ کا سبب بن گئے۔ اگر اس معاملے کو مناسب انداز میں نہیں سنبھالا گیا تو یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔‘‘
#سابق فوجی افسران کیا کہتے ہیں؟
جوائنٹ وارفیئر اسٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ونود بھاٹیا کا کہنا تھا، ’’مسلح افواج کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کسی تجرباتی پروجیکٹ کے بغیر اسکیم کا براہ راست نفاذ معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں۔
شمالی آرمی کمان کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا خیال ہے، ’’ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ اسکیم کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ ہمیں کم از کم چار برس کا انتظار کرنا ہو گا۔ اس کے بعد تجزیہ کیا جائے اور حکومت کو سفارشات پیش کی جائیں۔ اس معاملے میں متوازن رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ اس اسکیم کی تیاری میں شامل نہیں تھے اس لیے اس کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ جب اسے نافذ کیا جائے گا تب کچھ چیزیں واضع ہو جائیں گی۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)