دہلی کی آفتاب شردھا کے قتل کی کہانی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ اس واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹرز اور میڈیا اس گھناؤنے واقعے کے ذریعے معاشرے کو بیدار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس واقعے کی اب تک کی کوریج سنسنی خیز رہی ہے۔ یہ ایک OTT کہانی کے قابل ‘مسالہ دار’ رہی ہے۔ ہر کوئی آفتاب کی ذہنی حالت کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہہ رہا ہے۔ آفتاب نے اپنی گرل فرینڈ کے کتنے ٹکڑے کیے؟ کیسے کیے؟ یہ صرف 35 ٹکڑےتھے، یہ تعداد35 ہی تھے نا؟ کیا اس نے اپنے احاطے میں کوئی سپاہی نہیں دیکھا؟ یا کیا اس کے پاس پیشہ ورانہ مہارتیں تھیں جو ایک شیف کو ہونی چاہئے؟ کیا اس کے پاس تیز دھار چاقو تھا؟ یا اس نے سبزی کاٹنےوالے چاقو کا سہارا لیا؟
لوگ بحث کر رہے ہیں کہ اس نے مردہ خانے میں کام کیا ہوگا۔ اندازہ ہے کہ جہاں آفتاب نے اپنی گرل فرینڈ کے ٹکڑے نئے فریج میں رکھے ہوں گے، وہاں کولڈ ڈرنکس بھی رکھے ہوں گے۔ اس نے اپنی گرل فرینڈ کا سر پلاسٹک کے تھیلے میں کہاں چھپا رکھا ہوگا؟ اس نے ٹارچ استعمال کی تھی یا نہیں کی۔ ایک لائٹر اردگرد پڑا ہوا ہے۔ خون صاف کرنے کے لیے کیمیکل کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ آفتاب چالاک ہےوغیرہ وغیرہ۔
یہ سب بتانے والے میڈیا کے لیے G-20 کی کہانی اہم نہیں رہی، یہاں تک کہ سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے بھی جن کے لیے بائیڈن سے زیادہ اہم آفتاب ہو گیا ہے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جسٹن ٹروڈو اور شی جن پنگ کی حقیقت میں جھڑپ ہوئی یا نہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجودہ بات یقینی لگتی ہے کہ آفتاب۔ شردھا کی کہانی میں کچھ بھی نہیں بچا۔ اگلے ہفتے مزید بات چیت ہوگی۔ مقتول بچی کے والد کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو بہت غمزدہ اور دکھی ہے۔
تحریر:شوبھاڈے (NDTV)
انگریزی سے اردو میں اختصار