تحریر: محمد افضل ندوی
داعئ اسلام مولانا کلیم صدیقی کے متعلق اب تک کی موصولہ تمام اطلاعات ومعلومات اور ملک وملت کی تمام مقتدر تنظیموں اور شخصیات کی فکرمندی اور ان کے تاثرات یہ بتلا رہے ہیں کہ داعئ اسلام ملت اسلامیہ کی آنکھوں کا تارا اور ان کے دلوں کی دھڑکن ہیں،جن کی توہین آمیز گرفتاری پر پوری ملت کے ضمیر کو گہرا صدمہ پہنچا ہے اور اس وقت پوری امت اسلامیہ بشمول عالم اسلام میں ایک شدید غم وغصہ کا لاوا پل رہا ہے جو ممکن ہے کل شدید احتجاج اور مظاہرے کی شکل میں پھوٹ پڑے جیسا کہ آج چند شہروں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔
اس لئے پیش بندی کی خاطر چند رہنما اصول پیش خدمت ہیں:
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بھارت میں مسلم عوامی احتجاج کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس میں کچھ تو مسلم جذباتی عنصر کے سبب اور کچھ مخالف پارٹی کے سماج دشمن عناصر کی منصوبہ بند دراندازی کے سبب یہ احتجاجات مشتعل ہو کر ہندو بنام مسلم، یا مسلم بنام پولیس وانتظامیہ کی ایک فسادی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس سے پولیس مجبوراً پوری فیاضی کے ساتھ لاٹھی چارج کرتی ہے اور پھر سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچا نے کے الزام میں مسلم طبقہ مختلف بھیانک کیسز کے تحت سالوں سال مقدمات کا سامنا کرتا ہے۔
لہٰذا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ مسئلے میں اس طرح کا کوئی بھی جذباتی اور اشتعال انگیز ردعمل اسلامی دعوت اور اس کے لئے مطلوبہ پرامن فضا کے لئے نہ صرف زہر قاتل ہے بلکہ اس کی جڑیں کاٹنے کا موقع فراہم کرےگا، لہٰذا خدا کے واسطے صبر ودعا سے کام لیں اور اس سلسلے میں اسوۂ نبوی کو سامنے رکھیں ، جس کی روشنی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے ہمیشہ پرامن دعوتی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے جذبات سے لے کر اپنی جان ہی نہیں بلکہ ہر چیز کی قربانی دی ہے، بلکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر دعوتی مصلحت کی خاطر انتہائی تذلیل آمیز صلح بھی گوارہ کی ہے، جسے حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھلی ہوئی فتح سے تعبیر کیا، اور بعد کے وقت نے اسے کھلی ہوئی فتح ثابت بھی کیا۔
تاہم اگر کسی جگہ کی صورتحال احتجاج کی طرف ڈھکیل ہی دے تو چاہئے کہ آپ کا احتجاج بھی پورا دعوتی با مقصد اور پرامن ہو۔ مثلاً اس میں صرف اور صرف سوجھ بوجھ رکھنے والے مخصوص حضرات ہی کو شریک کیا جائے۔
ہر قسم کی نعرے بازی خصوصاً اسلامک سلوگن سے پرہیز کیا جائے،برادران وطن کے انصاف پسند لوگوں کو شریک کیا جائے،،دستور و آئین کے تحفظ اور اس کے بچاؤ کی دہائی دی جائے،مثلاً آپ کے پلے کارڈز پر اس طرح کے سلوگن لکھے ہوں،
(1) stop religious persecution
(2) religious freedom is every Indian,s right.
(3)Religious preaching is the right of every Indian
(4)Religious freedom is the birthright of every human being in the world
(5)Give everyone religious freedom،
(6) इस्लाम में कोई जोर जबरदस्ती नहीं (क़ुरआने करीम)
(7)हर मानव जाति को धर्म की आजादी दो
(8)save article 25 of
constitution of India
(9) Islam sab ke liye
(10) quran sab ke liye
یہ اور اس طرح کے پوزیٹیو نعرے ہی لکھیں۔۔۔۔۔۔۔پرامن اور معتدل رہیں، یہی ہماری جیت ہے۔