معاشی ماہرین مستقل معاشی نمو کی پیشن گوئیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بیشتر کا خیال ہے کہ دو سال پہلے کی معیشت اسی طرح آجائے گی۔ یہاں سےہندوستان تیز ی سے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا یا اسے درمیانی راستے میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا ، دیکھنا یہ ضروری ہے۔ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے حال میں ہوئی ترقی کے تہہ میں جانا ہوگا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کووڈ حملے سے پہلے ہی ہندوستان کی معاشی نمو مودی کے دور حکومت میں زیادہ سے زیادہ 8 فیصد سے کم سے کم 4 فیصد ہوگئی تھی۔ یقیناً صورتحال سرمایہ کاری کے معاملے میں زیادہ خراب رہی۔ یہ تین سال پہلےکی سطح 8.7 فیصد پر گیا۔ عوامی قرض دو تہائیبڑھا کر جی ڈی پی کا 90 فیصد ہوچکا ہے۔
گرتے روزگار کے رجحان اور ناہموار ترقی کے پیش نظر معیشت میں تیزی سے سدھار ہونے کا امکان کم ہے۔ روزگار کی خواہش رکھنے والوں کی آبادی کم ہوئی ہے۔ زراعت پر منحصر آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
ایسے میں خرچ کے موجودہ سطح کو بنائے رکھنا چیلنج ہے۔ اگر کھپت آہستہ آہستہ بڑھ جاتی ہے تو سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی سطح تک پہنچنے میں دو سے تین سال لگیں گے۔ گھریلو طلب میں کمی کی صورت میں ہم برآمد کی مانگ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ چین سے دور رہتے ہوئے مغرب کی معیشت ایک راہ کی تلاش کر رہی ہے اور اس کی رفتار بھی تیز ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ خودکفیل ہندوستان اس میں کتنا مددگار ہوگا۔ بہر حال گھریلو مارکیٹ میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے۔
کوئی نہیں چاہتا کہ ہندوستان لاطینی امریکہ بن جائے۔ غربت اور غیر مساوی آمدنی کے معاملے میں دونوں کی صورتحال یکساں ہوتی جارہی ہے۔ اسکاٹ فیجگو رالڈ کے ناول میںپالیسی سازوں نے ایک ٹرم ایجاد کیا ہے ’گریٹ گڈس بائے کوور‘ اس ناول میں امریکہ میں عدم مساوات کا ذکر ہے۔
معاشی ترقی میں مشرقی ایشیا کی کارکردگی خراب ہے ، لیکن لاطینی امریکہ کی صورتحال بہت خراب ہے۔ اگر ہندوستان توجہ دیتا ہے تو وہ ترقی کی تیز رفتار شرح میں مشرقی ایشیا کے قریب اور لاطینی امریکہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔
26 مئی کو نریندر مودی حکومت کے دو سال پورے ہونے کے بعد کسی نے بھی وزیر اعظم مودی کی تعریف نہیں کی ، نہ ہی کوئی جشن منایا گیا۔ کورونا میں گزشتہ سال کے مقابلے یہ الگ صورت حال رہی۔ پکے کامی بھی کہنے لگے جب قیادت دکھاے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ، وزیر اعظم غائب ہوگئے۔ آکسیجن کی کمی سے موت، گنگا کنارے کی ریتلی قبریں جب دنیا دیکھ رہی تھی تب بھی وزیر اعظم نہیں نظر آئے۔مودی کے لیے جتنا برا وقت دکھا ہے اتنا دنیا کے کسی سیاسی لیڈر کے لیے نہیں دکھا۔ مقبولیت میں گراوٹ آئی ہے ۔
جن ممالک نے ویکسین بنانے والوں کو گزشتہ سال پیسے دئے تھے ، وہ وقت پر ویکسین پاکر پرسکون ہیں۔ اب گرو پورنیما کے دن یہ مان لینے کے بعد کہ یہ ویکسین ہی کورونا کے خلاف لڑائی کا ہتھیار ہے ، اب تک 2 ارب ویکسین کے آرڈر نہیں دیئے گئے ہیں۔ بتادیں کہ وزیر داخلہ امت شاہ اس پوری مدت میں غائب رہے۔ کووڈ کی وبا سے نمٹنے کے لئے امت شاہ کی وزارت داخلہ ذمہ دار تھی، لیکن وہ مغربی بنگال کے انتخابات میں مصروف تھے۔ اب بھی وہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
دوسری جانب کسانوں کا ’یوم سیاہ‘ 26 مئی کو بھی منایا گیا۔ مودی سرکار کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس آندولن کو وہ ختم کرائے ۔ یہ کام تینوںزرعی قوانین واپس لے کر ہی ہوسکتاہے وجہ یہ ہے کہ کسانوں کو سرکار پر اعتماد نہیں رہا۔ اس اعتماد کو دوبارہ حاصل کئے بغیر مودی کے برے دن ختم ہوتے نہیں دکھ رہے ہیں۔ کورونا بحران سے نمٹنے کا واحد حل ٹیکہ کاری ہے، لیکن اتنے ٹیکہ آئیں گے کہاں سے ؟ مودی سرکار نے ذمہ داری ریاستوں پر ڈال دی۔ لیکن اب دیر ہوچکی ہے، لوگ پوچھ رہے ہیں بتائے ’ وزیر اعظم جی ،قافلہ کیو ں لٹا؟
(بشکریہ :انڈین ایکسپریس )