دہرا دون :(ایجنسی)
اتراکھنڈ کے عوام جانب سے بار بار حکومت تبدیل کرنے کا سلسلہ اس مرتبہ ٹوٹتا نظر آرہا ہے اور ریاست میں ایک مرتبہ مودی میجک کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ اب تک کے رجحانات میں برسراقتدار بی جے پی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس سے کافی آگے نظر آ رہی ہے۔ اگر ووٹ شماری کے آخری مراحل تک یہی رجحانات جاری رہے تو بی جے پی کو ایک مرتبہ پھر واضح اکثریت حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ریاست میں اقتدار مخالف لہر اور بار بار وزیر اعلیٰ تبدیل ہونے کا کوئی اثر نظر نہیں آ رہا ہے۔
ریاست میں دوپہر تک ہونے والی ووٹ شماری کے مطابق بی جے پی 46 سیٹوں پر آگے چل رہی ہے، جبکہ اقتدار کی اہم دعویدار کانگریس 20 کے ہندسہ تک پہنچتی نظر آ رہی ہے۔ ریاست میں اکثریت کا ہدف 36 ہے، جسے بی جے پی فی الحال عبور کر چکی ہے اور کانگریس اس سے دور ہے۔ تاہم بی جے پی اپنے سابقہ کارکردی 57 سیٹوں سے کافی دور ہے۔ ووٹنگ کے بعد کئی علاقوں میں کانگریس کے جو قدآور لیڈران مانے جا رہے تھے وہ ہار رہے ہیں، جبکہ کئی قدآور لیڈران کبھی آگے تو کبھی پیچھے ہو رہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ عہدہ کے دعویدار ہریش راوت بھی لال کنواں سیٹ سے ہار گئے ہیں۔ وہیں، وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو بھی کھٹیما سے ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس مرتبہ کوماؤں خطہ میں کانگریس کو بی جے پی پر بھاری قرار دیا جا رہا تھا لیکن وہاں بھی بی جے پی ہی آگے ہے۔
بی جے پی کی اس کامیابی کا کریڈٹ پارٹی کی موجودہ حکومت کو نہیں بلکہ مرکزی حکومت اور خاص طور پر مودی کے جادو کو دیا جا سکتا ہے۔ ریاست میں حاضر ڈیوٹی اور سابق فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی بی جے پی کی جیت کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے۔ ’ون رینک ون پنشن‘ اور پاکستان میں بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک نے اتراکھنڈ کے لوگوں کا مودی پر اعتماد بڑھا دیا ہے۔ اس بار ریاست میں 94 ہزار سرویس ووٹر تھے، جو بی جے پی کے حق میں جاتے نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مودی کی تقریر اور مرکزی حکومت کا راشن بھی اتراکھنڈ میں بی جے پی کے کام آیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو کئی مرکزی اسکیموں کا براہ راست فائدہ مل رہا ہے جن میں رشی کیش-کرن پریاگ ریل، آل ویدر چاردھام روڈ شامل ہیں۔ موجودہ انتخابات میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا بھی کافی اثر رہا ہے۔ انتخابات کے دوران مہنگائی، بے روزگاری، گیرسین راجدھانی، اراضی قانون، ہجرت اور لوک آیکتا جیسے مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر گئے جبکہ مسلم یونیورسٹی، لو جہاد، لینڈ جہاد اور یکساں سول کوڈ جیسے خیالی مسائل مہم پر حاوی رہے۔ عام آدمی پارٹی نے بھی انتخابات میں کانگریس کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ جبکہ خود عام آدمی پارٹی کی کارکردگی مایوس کن نظر آتی ہے۔
ریاست کی تشکیل سے لے کر 2017 کے انتخابات تک اتراکھنڈ میں کانگریس اور بی جے پی باری باری حکومت بناتی رہی ہیں۔ سال 2002 میں ہوئے پہلے الیکشن میں کانگریس نے 36 سیٹیں حاصل کر کے ریاست میں حکومت بنائی تھی۔ وہیں بی جے پی 19 سیٹوں پر محدود رہ گئی تھی۔ اس سے پہلے بی جے پی کی عبوری حکومت موجود تھی۔ 2007 کے انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت سے دو کم اور کانگریس کو 21 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ واحد سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے، بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع ملا اور بھوون چندر کھنڈوری وزیر اعلیٰ بنے، جنہوں نے اپنے دور حکومت میں ہی اکثریت کا ہندسہ عبور کر لیا تھا۔ اس کے بعد 2012 کے انتخابات میں کانگریس کو 32 اور بی جے پی کو 31 سیٹیں ملیں۔ واحد سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے کانگریس کو حکومت بنانے کا موقع ملا، پھر وجے بہوگنا کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا، جنہوں نے اپنے دور حکومت میں ہی اکثریت حاصل کی تھی۔ تاہم 2014 میں انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا اور ہریش راوت وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 2017 کے الیکشن میں بی جے پی نے 57 سیٹیں حاصل کر کے بے مثال کامیابی حاصل کی اور کانگریس 11 سیٹوں پر سمٹ گئی۔