تحریر: اسجد عقابی
(استاذ دارالعلوم وقف دیوبند)
دنیا میں بسنے والے بیشتر افراد کسی نہ کسی مذہب کے سائے تلے جیتے ہیں، ان کی زندگیوں پر مذہبی اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاتے ہیں، شادی بیاہ، تجہیز و تکفین تک میں جو عوام الناس میں مختلف رسومات ہیں وہ مذاہب کے زیر اثر ہیں۔ حتیٰ کہ انسانی زندگی پر مذہب کا رنگ اس قدر نمایاں اور واضح ہوتا ہے کہ انسانی نام میں بھی مذہب جھلکتا ہے بلکہ بادی النظر میں یہ نام ہی مذہب کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ دین حنیف اور حقیقی دین کون ہے ہر کوئی اپنے مذہب پر مطمئن نظر آتا ہے، اس کے باوجود بھی بعض لوگ اپنے مذہب کی خود تراشیدہ باتوں سے تنگ آکر دوسرے مذہب میں امن و سکون تلاش کرتے ہیں۔
مذاہب عالم میں گرچہ باہمی رسہ کشی پائی گئی ہے اور فی زماننا اس کے واضح ثبوت ملتے ہیں لیکن ایک بات زمانہ ماضی سے اب تک تقریباً یکساں طور پر محسوس کی گئی ہے کہ مذاہبِ عالم کے پیشواؤں اور ان کی مقدس کتابوں کا احترام تقریباً تمام مذہبی شخصیات کیا کرتی تھیں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک میں خصوصاً اور عموماً پوری دنیا میں ایک عجیب رجحان پروان چڑھنے لگا ہے۔ بلکہ ہمارے ملک ہندوستان میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جو انسان مذہب اسلام اور اسلامی تعلیمات کی جس قدر برائی بیان کرے گا، دشنام طرازی کرے گا اور انسانیت کے نام پر غلیظ جانوروں کی حرکت کرے گا اسے اسی قدر بڑھاوا دیا جائے گا، اس کی عزت افزائی کی جائے گی اور اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے جائیں گے۔
مذہبی منافرت اور مذہبی رسہ کشی کے معاملے میں ہمارا ملک سابقہ تمام ریکارڈوں کو توڑ چکا ہے۔ مذہبی منافرت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب مسلمانوں کو نماز ادا کرنے اور دیگر اسلامی شعار کی بجا آوری میں بھی تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن جگہوں پر دہائیوں سے نمازیں ہو رہی تھی اب وہاں زور زبردستی سے نماز پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل نوئیڈا اور گرو گرام نماز جمعہ کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ ان جگہوں پر اکثریت کے افراد نماز پڑھنے سے منع کر رہے ہیں اور انتظامیہ اس حد تک بے حس ہو چکی ہے کہ ایک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دوسرے مذہب والے کی عبادت پر پابندی لگانے کو تیار بیٹھی ہے۔
ماضی میں صوفی سنتوں کو امن و امان کا پیامبر تصور کیا جاتا تھا۔ مذہب سے پرے لوگ ان کی عزت کیا کرتے تھے، لیکن اب ملک کی صورتحال بدل گئی ہے۔ اب بڑے بڑے مٹھ اور آشرم کا ٹھیکیدار اور ذمہ دار اس سادھو یا سادھوی کو بنایا جاتا ہے جس میں زہر اگلنے کی زیادہ صلاحیت موجود ہو۔ یہ ایک طویل اور لمبی فہرست ہے جسے شمار کرنا مقصود نہیں ہے البتہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ آج کل ایک سادھو نما انسان مسلسل پیغمبر اسلام مذہب اسلام کی شان میں گستاخیاں کر رہا ہے، ہر آئے دن اپنے زہریلے بیان سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچا رہا ہے لیکن افسوس کہ جس قدر اس کی اوچھی اور غلیظ حرکت تیز ہو رہی ہے ہندوؤں میں اس کی مقبولیت اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اسی ملک میں ایک انسان مسلمانوں کی سب سے مقدس کتاب اور روئے زمین کی سب سے معتبر کتاب ’قرآن مجید‘ کی بے حرمتی کرتا ہے، اس کی آیات کے سلسلہ میں لب کشائی کرتا ہے اور قرآن مجید میں تحریفات کی سعی لاحاصل کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی تو درکنار بلکہ اسے اور بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ قابلِ صد افسوس پہلو یہ ہے کہ پہلے عموماً ایسی غلیظ حرکت کے مرتکب عامی ہوا کرتے تھے لیکن اب ان حرکتوں کو انجام دینے والے نام نہاد مذہبی لیڈران ہیں۔
پیغمبر اسلام اور مذہب اسلام کی شان میں گستاخیوں کے واقعات دن بدن بڑھ رہے ہیں اور ان حرکات شنیعہ کے مرتکب کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں! حکومت، عدلیہ اور انتظامیہ کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ ان شر پسند عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ نفرت کے ان پجاریوں کو بدامنی پھیلانے کے لیے کیوں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے؟ حالانکہ ہمارے اسی ملک ہندوستان میں مہاراشٹر کے سیاسی لیڈر اور شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے کی موت کے بعد مہاراشٹر کے بند ہونے پر دو لڑکیوں کو صرف اس لیے گرفتار کرلیا گیا تھا کہ انہوں نے اعتراض جتایا تھا۔ منور فاروقی کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ شک تھا کہ وہ کسی مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتا تھا۔ حال ہی میں ایک شخص کی گرفتاری ہوئی کیونکہ اس نے وزیراعظم پر تبصرے کئے تھے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں دیگر ایسے لوگوں کے معاملات میں بھی گرفتاری ہوئی ہے جن کو کوئی مذہبی تشخص حاصل نہیں ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں مذہبی منافرت اور مذہبی شخصیات کے متعلق کچھ بولنے یا لکھنے کی وجہ سے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ لیکن مذہب اسلام، پیغمبر اسلام اور اسلامی شخصیات و تعلیمات کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی ہے۔ اگر ہمارے ملک میں اس طرح کا کوئی قانون نہیں ہے تو آزادی اظہار رائے کے نام پر ہر کسی کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ایک مخصوص نظریہ کے حامل افراد کو کھلی چھوٹ ملی ہے چاہے جتنا نفرت پھیلائے یا چاہے جتنا ملک کی ہم آہنگی میں رخنہ پیدا کرے۔
کسی بھی مذہب میں ان کی بنیادی شخصیات کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ان کے متبعین ان سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں مذہب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو انفرادیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت صرف جذباتی نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی جز ہے۔ محبت رسول اور اطاعت رسول کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ جنگ بدر کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ کا پرجوش اور ولولہ انگیز خطاب در اصل قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی ترجمانی ہے۔ ایک مسلمان کو اپنے نبی سے جان و مال اور دنیا و مافیہا سے زیادہ لگاؤ اور عقیدت ہوتی ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبر کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے جائیں اور ان کے قلوب چھلنی نہ ہو۔ مذہب اسلام افسانوں کہانیوں کا مجموعہ نہیں ہے جس کے ثبوت و اثبات کے لئے تگ ودو کی ضرورت پیش آئے بلکہ یہ تو رب العالمین کا نازل کردہ وہ دین ہے جس کے تکمیل کی بشارت چودہ سو سال قبل ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی ہے۔ اب نہ کوئی نیا دین قابلِ قبول ہوگا اور نہ کوئی قدیم مذہب لائق اطاعت ہوگا۔ اب رب ذوالجلال کی بارگاہ میں صرف اور صرف مذہب اسلام لائق اطاعت اور قابل قبول ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ مسلمانوں کا اپنے مذہب کے تئیں یہ حال ہے کیسے وہ آئے دن اہانت آمیز تبصرے برداشت کرسکتے ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری ملک ہونے کے اعتبار سے حکومت کو چاہیے کہ ایسے بے لگام عناصر پر روک لگائے، ان کے روک تھام کے لیے قانون بنائے اور ملک میں پھیلی ابتری کو ختم کرے۔