ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ جوہری امور پر بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ تاکہ دوسرے فریق کا نکتہ نظر سمجھا جا سکے اور اپنی شرائط پیش کی جا سکیں۔
ان خیالات کا اظہار سپریم لیڈر کے مشیر نے جمعرات کے روز کیا ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے ‘تسنیم’ کے مطابق کمال خرازی نے کہا یہ خیالات اس لیے پیش کیے جارہے ہیں تاکہ کسی مناسب فیصلے کی طرف بڑھا جا سکے۔واضح رہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مارچ کو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر کو ایک خط لکھا ہے۔ خط میں ٹرمپ نے ایران کو جوہری پروگرام پر مذاکرات یا پھر ایران کو سخت کارروائی کے لیے تیار رہنے کا کہا تھا۔
ایرانی سپریم لیڈر نے اس خط کے موصول ہونے سے پہلے ہی مذاکرات سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ایران دباؤ میں کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔ ایران کو یہ خط بعد ازاں 12 مارچ کو متحدہ عرب امارات کے صدر کے مشیر کے تسط سے ملا تھا۔ایرانی وزیر خارجہ نے بھی پچھلے ہفتے امریکی صدر کے خط پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خط دھمکی دینے سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ اس میں مواقع بھی موجود ہیں۔ ہم ایک ایک نکتے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاکہ دھمکی کے پہلو کو بھی دیکھ لیں اور مواقع کا بھی جائزہ ہو سکے۔ اس لیے جلد جواب دیں گے۔
ایران کے سابق وزیر خارجہ کمال خرازی نے ٹرمپ کے اس خط کو ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا ایک حربہ قرار دیا تھا ۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا آج امریکی حکومت بیک وقت جنگ اور مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے۔ ایک ہی خط میں دو متصادم باتیں ہیں۔ امریکہ ایران کو کھینچ کر مذاکرات میں لے جانا چاہتا ہے مگر بغیر کسی پیشگی ایسی بات کے کہ ان مذاکرات کا حاصل کیا ہوگا۔تاہم پیر کے روز ایران کے موجودہ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ایران امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ تاہم جب تک ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری ہے ایران امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔