رامپور :(آر کے بیورو)
اعظم خاں ایک بار پھر اتر پردیش میں موضوع بحث ہیں۔ دراصل اعظم خاں کے میڈیا انچارج فصاحت علی خاں نے ایسا بیان دیا، جس سے ریاست کی سیاست میں ہلچل مچ گئی۔ فصاحت کے بیان کے بعد قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ یہ بیان اعظم خاں نے دیا ہے اور اعظم خاں سماج وادی پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔
اتوار کو رامپور میں ایس پی میٹنگ میں ایس پی سربراہ اکھلیش یادو پر نشانہ لگاتے ہوئے اعظم کے میڈیا انچارج فصاحت علی خاں عرف سانو نے کہا، ’مسلمانوں کا شکریہ کہ پارٹی نے انتخابات میں 111 سیٹیں جیتی ہیں۔‘ انہوں نے کہا، ’جب یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، ان کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں اور ان سے وصولی کی جا رہی ہے، تب پارٹی صدر خاموش رہتے ہیں ۔ ‘
فصاحت خاںیہیں نہیں رکے بلکہ میٹنگ میں طنزیہ انداز میں کہا کہ ’ہمارے کپڑوں سے ہمارے قومی صدر کو بدبو آتی ہے۔ اکھلیش اور ان کے والد (ملائم سنگھ یادو) مسلم ووٹوں کی مدد سے وزیر اعلیٰ بنے، لیکن موجودہ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے عہدے کے لیے اعظم خاں کے نام پر غور نہیں کیا گیا۔ آپ نے بی جے پی سے ہماری دشمنی کرادی، سزا صرف ہمیںملے گی اور مزے آپ لیں گے ۔‘
اعظم کے میڈیا انچارج نے یہ بھی الزام لگایا کہ ’’اکھلیش نے اسمبلی میں تقریر کی، لیکن ایک بار بھی اعظم خاں کا نام نہیں لیا۔ اکھلیش اب تک جیل میں اعظم سے صرف ایک بار ملے ہیں۔ کیا ہمیں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی بات مان لینی چاہیے کہ اکھلیش یادو خود اعظم خاں کو (جیل سے) باہر نہیں چاہتے ہیں۔ فصاحت علی خاں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ، ’’ہم اعظم صاحب کو ایس پی چھوڑنے کا مشورہ دیں گے۔ اعظم خاں نے لوک سبھا سے استعفیٰ دے دیا تھا تاکہ وہ یوپی اسمبلی میں عوام کی آواز اٹھا سکیں، لیکن پارٹی نے انہیں اپوزیشن لیڈر نہیں بنایا۔
بتادیں کہ اعظم خاں کا مسلم ووٹوں پر کافی اثر ہے اور قید ہونے کے باوجود اعظم خاں اور ان کے بیٹے نے 60 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے الیکشن جیتا ہے۔ تاہم اعظم خاںجیل میں بند ہونے کی وجہ سے اسمبلی کی رکنیت نہیں لے پائے۔ اعظم خاں نے لوک سبھا کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیاہے۔ اعظم خاں ریاست کے بڑے مسلم لیڈروں میں شمار ہو تے ہیں اور مسلم ووٹوں پر ان کا کافی اچھااثر ہے ۔