نئی دہلی (آر کے بیورو)
کیا مغربی بنگال کی سیاست میں ممتا بنرجی کے خلاف ایک نیا سیاسی محاذ ابھر رہا ہے؟ کیا ایک نیا اویسی پیدا کیا جارہا ہے اور آخر ان سب کے پیچھے ہے کون؟کیا یہ مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کی دور رس حکمت عملی ہے؟ اور میڈیا ہمایوں کبیر کو اتنا کہوں اچھال ہے؟ ہمایوں کے بیانات کو ہیڈ لائنز بناکر پیش کررہا ہے اور کیا ہمایوں میں اویسی کی طرح چیلنج پیش کرنے کی صلاحیت ہے ؟جیسا کہ اویسی صاحب نے بہار کے سیمانچل میں میا گٹھ بندھن کو چیلنج کیا تھا؟یہ سوال اس لیے زور پکڑ رہا ہے کیونکہ نکالے گئے ٹی ایم سی ایم ایل اے ہمایوں کبیر نے 22 دسمبر کو ایک نئی پارٹی کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ لاکھوں حامیوں کی موجودگی میں پارٹی کا آغاز کریں گے۔،سوال یہ بھی ہے کہ فنڈنگ کون کررہا ہے اور میڈیا اتنی ہمدردی اور جوش کیوں دکھا رہا ہے،؟
کبیر نے واضح طور پر علی الاعلان دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی سے بات کی ہے، اور اویسی نے ان سے یہاں تک کہا ہے کہ "آپ بنگال کے اویسی ہیں۔” کبیر 10 دسمبر کو کولکتہ پہنچیں گے اور اپنی پارٹی کی کمیٹی کا اعلان کریں گے۔
کبیر، وہی لیڈر ہیں جو پہلے بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھ کر سرخیوں میں آئے تھے، اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تیاریاں مکمل ہیں اور 22 دسمبر کو پارٹی کا باضابطہ آغاز کیا جائے گا۔ انہوں نے پہلے اے آئی ایم آئی ایم اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کا اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ریاست میں 135 سیٹوں پر مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ایم آئی ایم کا سخت انکار ، کبیر کی بی جے پی سے ملی بھگت کا الزام ۔
ادھر کئی دنوں کی خاموشی کے بعد ، اے آئی ایم آئی ایم نے کبیر کے تمام دعووں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ پارٹی کے قومی ترجمان سید عاصم وقار نے یہاں تک الزام لگایا کہ ہمایوں کبیر کی سیاست "مشکوک” ہے اور وہ بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات میں گھرے ہوئے ہیں۔وقار نے کہا تھا کہ مسلم کمیونٹی اشتعال انگیزی کی سیاست کو برداشت نہیں کرتی۔ اے آئی ایم آئی ایم اپنے آپ کو ہر اس شخص سے دور رکھتی ہے جو سماجی تقسیم کو بڑھاتا ہے۔ اویسی کسی ایسے لیڈر کے ساتھ تعلق نہیں رکھ سکتے جو اتحاد کو خطرے میں ڈالنے والی سیاست میں ملوث ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ فی الحال اے آئی ایم آئی ایم سے کبیر کے لیے تمام دروازے بند ہیں۔
اگرچہ اے آئی ایم آئی ایم ہمایوں کبیر سے دوری برقرار رکھے ہوئے ہے، کبیر کی نئی پارٹی اور "بنگال کے اویسی” کا بیانیہ ٹی ایم سی کے لیے مشکلات بڑھا سکتا ہے۔ بنگال میں مسلم ووٹوں کا 27% حصہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے اقتدار کی سیاست کا فیصلہ کن عنصر ہے۔تو کیا یہ سوال واجب ہے کہ بنگال میں نیا اویسی پیدا کیا جارہا ہے ؟اخر آرکٹیکٹ کون ہے؟اور یہ بھی کہ کیا ہمایوں کبیر میں صلاحیت ہے بھی کہ وہ اویسی بن سکیں اور ممتا کو چیلنج کرسکیں ؟








