تحریر:محمد خالد
کرناٹک ہائی کورٹ نے آج حجاب کے تعلق سے دائر مقدمات کا فیصلہ سنا دیاجس میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں حجاب لازم نہیں ہے۔ہائی کورٹ کا فیصلہ دو طرح سے فیصلہ نہیں کہا جا سکتا؛ اول کسی بھی مذہب کی تفہیم یا تاویل متعلقہ مذہب کے رہنما ہی کر سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں مگر عدالتیں اس کا لحاظ نہیں کر رہی ہیں۔ عدالت کو تو بس یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کا کوئی عمل ملک میں انتشار اور افرا تفری پھیلانے والا نہ ہو۔ مذہبی معاملات کو متعلقہ مذہب کے ذمہ داروں کے حوالے ہی رکھنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جس کے تمام ماننے والوں کا مذہبی طریقہ کار یکساں ہو۔ ایسی حالت میں عدالتوں کے فیصلے مسئلے کا حل کے بجائے مسئلے کی پیچیدگی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے عمومی طور پر بھی عدالتوں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ ایک ہی قسم کے معاملات میں عدالتیں مختلف نوعیت کے فیصلے دے رہی ہیں۔ جس کی تازہ مثال لکھیم پور کھیری کا معاملہ ہے جہاں احتجاج کرنے کے جرم میں گرفتار کسان تو جیلوں میں قید ہیں اور ان ہی کسانوں کو اپنی گاڑی سے روندنے والے شخص کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں جن میں عدالتوں کے فیصلوں میں تفریق پائی جاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ملک کا دستور ہر شہری کو اپنی پسند اور اپنے مذہب کو اختیار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے لہٰذا دستور میں دئے گئے اختیار کا احترام عوام کے ساتھ ساتھ حکومت اور عدلیہ پر بھی عائد ہوتا ہے جس کو نظر انداز کرنے سے ملک کے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنا فطری بات ہے۔اپنے ملک میں مختلف مذاہب اور نظریات کے لوگ اپنے اپنے عقائد کے مطابق طرزِ زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں اگر کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے لباس، کھانا اور دیگر رسومات پر پابندی لگانے کی کوشش کی جائے گی تو کسی بھی لحاظ سے یہ عمل مناسب بات نہیں ہوگی۔ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ممبران ملک کی عوام کے ترجمان ہیں اور وہ سب بھی اپنی اپنی پسند اور علاقائی تہذیب کے مطابق لباس کو استعمال کرتے ہیں تو کیا وہ اس بات کو پسند کریں گے کہ ان کے لباس اور دیگر معاملات پر سوال کھڑا کیا جائے۔حکومت کرناٹک نے بھی اگر اپنی آئینی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہوتی تو حجاب کے معاملے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں اگر لباس کی کوئی خاص شکل اختیار کی گئی ہے تو وہاں تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب علم پر اس کی پابندی لازم ہے مگر یہ پابندی کالج کی حدود میں ہی عائد ہونا چاہئے، کالج کے گیٹ کے باہر نہیں۔ جس طرح سے پورے شہر میں برقعہ پوش خواتین کو حراساں کیا جا رھا تھا اس پر انتظامیہ کو قابو پانے کی کوشش کرنا ضروری تھا کیونکہ صوبائی اور ملکی سطح پر امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
انتظامیہ نے اگر بروقت کارروائی کر کے مسئلے کا کوئی حل نکال دیا ہوتا تو آج یہ معاملہ عدالت کے فیصلے تک نہ پہنچتا۔ اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں مذہبی منافرت کا ماحول پایا جاتا ہے جو کہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے لہٰذا حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ ہر اس بات سے پرہیز کیا جائے جو معاشرے میں لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے والا ہو۔ ملک کی ترقی، خوشحالی اور امن و امان کے لئے قومی یکجہتی کا مضبوط سے مضبوط تر ہونا بہت ضروری ہے۔آج کا کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ملت اسلامیہ ہند کی موجودہ کیفیت پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے کہ ہم مسلمان عملی طور پر اسلام کی تعلیمات سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ اسلام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہماری دینی شناخت بہت کمزور ہو گئی ہے، پردہ جیسے اہم معاملہ کو بھی ہمارے دین کا طریقہ نہ مان کر ہماری رسومات سمجھا جا رھا ہے۔ایسا کیوں نہ سمجھا جائے جب کہ مسلم خواتین کی بہت ہی قلیل تعداد حجاب استعمال کرتی ہے اور اس پر بھی ستم یہ کہ آج جس قسم کے حجاب استعمال کئے جا رہے ہیں وہ کیا حجاب کہے جا سکتے ہیں، قرآنی حکم کا مفہوم ہے کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ گھر سے باہر نکلنے پر اپنی چادروں کو اپنے جسم پر پھیلا لیں تاکہ جسم کے خد و خال ظاہر نہ ہوں اور لوگ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں مگر موجودہ حجاب نہ صرف بہت تنگ ہوتے ہیں بلکہ ان پر مختلف قسم کی ڈیزائن اور کڑھائی وغیرہ کر کے ان کو دیدہ زیب بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے برقعہ پوش خواتین لوگوں کی توجہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ حجاب استعمال کرنے والی خواتین میں بہت ہی کم خواتین شرعی حجاب کا استعمال کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈی میڈ کپڑے تیار کرنے والے کاروباری افراد کے درمیان نئے نئے حجاب کے ڈیزائن تیار کرنے کی مقابلہ آرائی کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔یہی حال مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔
مسلمان اپنے معاملات زندگی میں اسلامی تعلیمات کا بہت ہی کم اہتمام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ایک تو مسلمانوں کا اپنے دین سے تعلق کمزور ہو رھا ہے تو ساتھ ہی غیر مسلم افراد، حکومت اور عدالت کے ذمہ داران اسلام کی اہمیت اور انفرادیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور مسلمانوں کی طرزِ زندگی کو ہی وہ اسلام سمجھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ طلاق کا معاملہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنا رھا۔ حکومت اور عدالت اپنا موقف رکھتی رہیں اور ملت کے ذمہ داران مذہبی تعلیمات کی وضاحت کی کوشش کرتے رہے مگر سوائے افسوس اور شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ وہی کیفیت اس وقت حجاب کے بارے میں بنی ہوئی ہے، دینی رہنما اس کی وضاحت میں مصروف ہیں مگر عدالت پر کوئی اثر نہ ہوا اور یہ فیصلہ آ گیا۔ آگے کی منزل سپریم کورٹ ہے مگر کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہاں انصاف ملے گا اور طلاق کے مقدمے کے فیصلے کو دہرایا نہیں جائے گا۔ اس سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کب تک ملت اسلامیہ ہند اس طرح سے ایک ایک مسئلہ کی وضاحت کرتی رہے گی اور اپنے دینی طریقوں کے تحفظ کے لئے ہاتھ پیر مارتی رہے گی۔ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ کے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھیں اور مجموعی طور پر دین کی تعلیمات پر مسلمانوں کے عمل پیرا ہونے کی راہیں تلاش کریں تاکہ برادران وطن کے سامنے عملاً دین کی تعلیمات کو پیش کیا جا سکے کیونکہ یہ ہماری معاشرتی نہیں بلکہ دینی ذمہ داری ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں، جماعتیں اور ادارے قائم ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کی بہتری کے لئے مستقل منصوبہ بندی ہوتی رہتی ہے، خاص طور مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے ہر تنظیم فکر مند نظر آتی ہے مگر کسی بھی تنظیم کی طرف سے ایسی کسی منصوبہ بندی کا ذکر سامنے نہیں آتا جس میں برادران وطن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کی خلیج کو بھرنے کے لئے کوئی منصوبہ تیار کیا جا رہا ہو۔ جب کہ ”خیر امت” ہونے کی وجہ سے یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ آئیے قومیت کے فریب سے نکل کر خیر امت کے فریضہ کو ادا کرنے کا آغاز کریں۔
سکریٹری جنرل، انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ (ایشو)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)