مراد آباد:(ایجنسی)
سماجوادی پارٹی کے قلعہ میں بھی بغاوت کے سُر پھوٹتے نظر آ رہے ہیں، جس کا اثر ایم ایل سی انتخابات میں نظر آ گیا ہے۔ مرادآباد، بجنور، امروہہ و سنبھل کے لئے ہوئے ایم ایل سی انتخاب میں سماج وادی پارٹی کے 13 اسمبلی ممبر و 2 پارلیمانی ممبر ہونے کے باوجود سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو صرف 1107 ووٹ ملے ہیں، جبکہ بی جے پی امیدوار نے 6440 ووٹ حاصل کئے۔ 5940 ووٹوں کے بڑے فرق سے بی جے پی امیدوار ستیہ پال سینی نے اپنی کامیابی درج کی ہے۔ بی جے پی امیدوار کے سامنے سماج وادی پارٹی کا امیدوار اپنے ہی گڑھ میں پوری طرح سے زمین دوز ہو گیا۔ سنبھل سے پارلیمانی ممبر بزرگ لیڈر ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا وہ بیان جس میں وہ یہ کہتے صاف نظر آ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو لے کر سماج وادی پارٹی کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا یہ بیان اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑتا نظر آ رہا ہے۔
اس کے بعد سماج وادی پارٹی کے قد آور لیڈر اعظم خان کے میڈیا انچارج فصاحت خان عرف شانو کا یہ کہنا کہ سماج وادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو مسلم لیڈران کو نظر انداز کر رہے ہیں، پارٹی کے بانیوں میں شامل اعظم خان جنہوں نے اپنی پوری زندگی سماج وادی پارٹی کو سینچنے میں لگا دی اور اسی وجہ سے وہ بی جے پی اقتدار کے نشانے پر ہیں۔ فصاحت خان یہیں نہیں رکے، انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ ڈالے عبدﷲ، لڑے عبدﷲ، جیل جائے عبد ﷲ، دشمنی پالے عبدﷲ اور وہ وزیر اعلیٰ بنیں اور حسب اختلاف لیڈر بھی خود ہی بنیں۔ کیا اعظم خان کا اس پر کوئی حق نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں اعظم خان جیل میں ہیں اور سماج وادی پارٹی سر براہ اکھلیش یادو ان سے صرف ایک بار ملنے گئے ہیں، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کو اعظم خاں کی کتنی فکر ہے۔ فصاحت خان کا یہ بیان اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اعظم خان بھی چچا شیوپال یادو کی طرح اکھلیش یادو سے ناراض ہیں۔ یہ ناراضگی اس لئے بھی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اکھلیش یادو نے اپنے دَم پر یو پی جیتنے کی کوشش میں اعظم خاں کے ذریعہ بھیجی گئی ٹکٹوں کی لسٹ کو پوری طرح سے نظر انداز کر دیا تھا۔ بدایوں سے سابق ایم ایل اے رہے عابد رضا کی ناراضگی بھی کھل کر سامنے آئی تھی اور عابد رضا نے بدائیوں سیٹ پر سماج وادی پارٹی کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑایا تھا۔
سماج وادی پارٹی سربراہ نے پارٹی کے موجودہ دیہات ایم ایل اے رہے حاجی اکرام قریشی کا ٹکٹ کاٹا، جس کے بعد حاجی اکرام قریشی نے کانگریس کا ہاتھ تھام لیا۔ حاجی اکرام کا بھی کہنا تھا کہ اکھلیش مسلم مخالف سوچ رکھتے ہیں، ان کا ٹکٹ اس لئے کاٹا گیا ہے کہ انہوں نے عوامی نمائندگی کرتے ہوئے مسلم مسائل اٹھائے تھے۔ اکھلیش ان مسلم چہروں کو ختم کرنے میں لگے ہیں جو مسلمانوں کی بات کرتے ہیں۔ حاجی اکرام کے اس بیان کو اس وقت اخبارات نے بڑی دلچسپی سے شائع کیا تھا۔
کندرکی سے ایم ایل اے رہے حاجی رضوان بھی سماج وادی پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بی ایس پی کے ہاتھی پر سوار ہو گئے ہیں۔ حاجی رضوان نے بھی سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اکھلیش ایک ایک کر کے مضبوط مسلم لیڈران کو زمین دوز کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مرادآباد ڈویژن کے ان تین اضلاع میں سماج وادی پارٹی کے ان قدآور لیڈران کی مخالفت سماج وادی پارٹی کے اس سیاسی قلعہ کے وجود کے لئے قطعاً ٹھیک نہیں ہے۔ سماج وادی پارٹی کے لئے یہ ایسا علاقہ ہے جہاں سماج وادی پارٹی کو ان حالات میں بھی مضبوطی ملی، جب پورے صوبہ میں سماج وادی پارٹی اپنی سیاسی زمین کھو چکی تھی۔
اعظم خاں کے میڈیا انچارج کا یہ بیان سماج وادی پارٹی کی سیاست کے لئے خطرے کی گھنٹی ضرور ہے، اس بیان سے سیاسی حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ اعظم خاں کوئی بڑا سیاسی فیصلہ لے سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اکھلیش یادو کو اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں یقیناً دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔