لکھنؤ :
انگریزی اخبار دی ہندو نے آج اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کے بعد سماج وادی پارٹی سے مسلمانوں کی مبینہ بیزاری پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
جیل میں بند سماج وادی پارٹی کے قد آور لیڈر اعظم خاں پر حالیہ سیاست اور اترپردیش میں ان کے حامیوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم لیڈروں کی طرف سے ظاہر کی گئی ناراضگی نے غیر بی جے پی پارٹیوں کے لیے اقلیتی برادری کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی کو سامنے لایا ہے۔ یہ مایوسی خاص طور پر اکھلیش یادو کی قیادت والی ایس پی کے لیے دکھائی دے رہی ہے۔
2022 کے اسمبلی انتخابات میں، مسلمانوں نے، جو ریاست کی آبادی کا 19.5 فیصد ہیں، ایس پی کے حق میں بڑے پیمانے پرمتحد ہو ئے اوراتحاد کو ایک سخت مقابلہ کرنے کے قابل بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
حالانکہ مسلمانوں سے متعلق مسائل پر غیر بی جے پی پارٹیوں کی اسٹریٹجک خاموشی اور بی جے پی کی مسلسل کامیابیوں نے اس کمیونٹی کے اندر ایک نئے غوروفکر کو جنم دیا ہے۔ اب یہ کمیونٹی اپنے سیاسی متبادل کے ساتھ ساتھ مستقبل کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے۔
سیف بابر لکھنؤ کے شاعر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام اعتراضات کے باوجود انہوں نے 2022 کے اسمبلی انتخابات میں ایس پی کو ووٹ دیا کیونکہ یہ واحد پارٹی تھی جو بی جے پی کو سخت ٹکر دیتی نظر آرہی تھی۔ بابر کہتے ہیں، ’اسے خوف کہیں یا سمجھ داری، لیکن بغیر کسی رہنما یا برادری کے مولوی کی پکار کے، مسلمانوں نے اس بار ایس پی کو ووٹ دیا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کہ مجھ جیسے شخص (ایس پی کے ناقد) نے بھی ایس پی کو ووٹ دیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ عام مسلمانوں میں ایک طویل عرصے سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ غیر بی جے پی پارٹیاں ان کے مفادات کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا،’مسلمان کسی پارٹی کو اس کی اہلیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے۔ انہیں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے موجودہ پارٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔‘
اعظم خاں سے جیل میں نہیں بلکہ سفاری کے لیے گئے تھے
گزشتہ 26 مہینے سے جیل میں بند اعظم خاں کے ایک معاون شانو خاں کہتے ہیں کہ وہ ایس پی اور اس کے پریوار سے بیزار ہو چکا ہے ۔ خاں کہتے ہیں کہ ایم پی ہونے کے باوجود ایس پی لیڈر ملائم سنگھ نے پارلیمنٹ میں اپنے دیرینہ ساتھی اعظم خاں کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ ملائم سنگھ کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے، وہ کہتے ہیں، ’وہ سفاری دیکھنے کے لیے اٹاوہ جا سکتے ہیں، لیکن 70 کلومیٹر کا سفر طے کرکر کے وہ ایک بار اعظم خاں سے ملنے سیتا پور جیل نہیں جا سکتے۔‘
اعظم خاں نے حال ہی میں جیل پہنچنے والے ایس پی کے وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ وہ اکھلیش کے چچا شیو پال یادو سے ملے تھے۔
شانو خاں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اکھلیش یادو کی قیادت والی موجودہ ایس پی میں تمام گروپوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ ان کے والد ملائم کے دور میں تھی۔
رام پور میں رہنے والے شانو کہتے ہیں،’2022 کے انتخابات کے دوران بھی کئی ایسے مواقع آئے جہاں ایس پی اتحاد کی طرف سے مسلم لیڈروں کو یا تو نظر انداز کیا گیا یا عوامی سطح پر ان کی تذلیل کی گئی، لیکن مسلمان یا تو خاموش رہے یا اس پر بحث کرتے رہے۔ بی جے پی کو ہندوؤں کو پولرائز کرنے میں مدد ملے گی۔
وہ کہتے ہیں، ’مسلمان سیاسی اچھوت بن چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنا ووٹ چاہتا ہے لیکن کوئی ان کا نام تک نہیں لینا چاہتا۔‘
’مسلمانوں کو نئے متبادل تلاش کرنا ہوں گے‘
عبدالحفیظ گاندھی، قانون کے استاد اور کاس گنج کے ایس پی کے ترجمان، محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں مایوسی کا احساس غالب ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جن اداروں میں انصاف کے لیے جاتے ہیں وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے۔
گاندھی کہتے ہیں، ’مسلمان سیاست میں غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے اندر یہ احساس پیدا کیا جا رہا ہے کہ حکومت ان پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔‘
گاندھی نے کہا، ’یہاں تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکروں کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن کو لے لیں۔ یہ احکامات تمام مذہبی مقامات کے لیے تھے لیکن مسلمانوں کے خیال میں یہ ان کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔‘
الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ایس فرمان نقوی کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی کو اپنے لیے نئےمتبادل بنانے ہوں گے۔ تاہم، وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ آیا کمیونٹی کو سیاسی متبادل بنانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں، ’آپ کسی سیاسی جماعت سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے وجود کے بجائے صرف آپ کے مفادات کا خیال رکھے گی۔ ہم نے اپنی تمام امیدیں ایک پارٹی پر لگا رکھی ہیں۔‘
مسلمانوں کو بی جے پی سے شکایت نہیں ، لیکن جنہیں وو دیا ان سے ہے
بابر کہتے ہیں مسلمانوں کو بی جے پی حکومت سے یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ اس کی نمائندگی کرے گی لیکن انہیں یہ یقینی کرنا چاہئے کہ جن پارٹیوں کو وہ ووٹ دے رہے ہیں ، وہ ان کی اہمیت سمجھے۔
وہ کہتے ہیں، ’ہمیں بی جے پی سے کوئی شکایت نہیں ہے، ہم نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ لیکن ہمیں ان پارٹیوں سے پریشانی ہے جن کے لیے ہم نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے تھے لیکن پھر بھی وہ اپنی پارٹی میں ہمارے ساتھ سی گریڈ کے لوگوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔‘
شانو کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں مسلمانوں کا سوال اب تعلیم یا ترقی سے متعلق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’اب ہم ایسے حالات میں ہیں جہاں زندہ رہنے کا سوال ہے۔ ہم کیا پہنتے ہیں، کھاتے ہیں، سڑک پر کیسے چلتے ہیں، نماز کیسے پڑھتے ہیں اور اذان کیسے ہوگی، سب کچھ حکومت طے کر رہی ہے۔‘
(بشکریہ: بی بی سی ہندی )