رپورٹ: اپوروا مندھانی
نئی دہلی: تین سال کی قید، تین چارج شیٹ کا سامنا کرنا، شادی، ’کووڈ علامات‘، مبینہ طور پر ساتھی قیدیوں کے ذریعہ پٹائی، اور اس دعوے کے بعد کہ استغاثہ فریق کو اس کی جیل کی مدت بڑھا کر ، ’ تکلیف پہنچانے میں مزا آرہاہے ‘ پیرکو سابق کانگریس کونسلر عشرت کو دہلی فساد کی سازش رچنے کے معاملے میں درج، ایک ایف آئی آر کے سلسلے میں ضمانت دے دی گئی۔
جہاں کواصل طور سے فروری 2020 فسادات سے جڑی ، ایک اور ایف آئی آر کے تحت گرفتارکیاگیا تھا۔ اس معاملے میں 21 مارچ 2020 کو انہیں ضمانت پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن، پھر اسی دن اانہیںسازش اس ایف آئی آر کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’دہلی کے فسادات پہلے سے منصوبہ بند سازش تھے‘، اور ‘ان فسادات کو پھیلانے کی سازش جے این یو کے طالب علم عمر خالد اور اس کے ساتھیوں نے کی تھی۔‘
ستمبر 2020 کو اس معاملے میں 17,000 سے زیادہ صفحات کی چارج شیٹ داخل کی گئی تھی۔ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ عشرت جہاں کا اپنا حلقے میں ’وسیع تر حمایتی بنیاد‘ ہے، اور یہ کہ ’بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے لیے ایک ممتاز خاتون چہرہ‘ ہونے کی آڑ میں، اس نے مبینہ طور پر ’سب سے اونچیمقامی کرسی حاصل کر لی تھی۔‘
اکتوبر 2020 میں 197 صفحات پر مشتمل ایک اور چارج شیٹ دائر کی گئی ، جس میں خالد اور جے این یو کے طالب علم شرجیل امام کے خلاف مقدمہ بنایا گیا تھا۔ اس معاملے میں اس سال فروری میں تیسری چارج شیٹ داخل کی گئی ۔
لیکن، پیر کو ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے کہا کہ ’چارج شیٹ اور گواہوں کے بیانات کے مطابق، ملزم عشرت جہاں وہ شخص نہیں ہے جس نے ‘چکا جام کی آئیڈیا مشورہ دیا تھا۔
عدالت نے مزید کہا، ‘وہ کسی تنظیم یا کسی فراڈ وہاٹس ایپ گروپ کی رکن نہیں ہے، جو پوری سازش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ مسلم اسٹوڈنٹس آف جے این یو ( ایم ایس جے) یا جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی ( جے سی سی ) جیسی کے بنائے چار میں سے کسی ایک گروپ پنجرہ توڑ ،اسٹوڈنٹس آف جامعہ ( ایس او جے )، الیومنائی ایسو سی ایشن آف جامعہ ملیہ ( اے اے جے ایم آئی) ،یا پر ڈی پی ایس جی، کسی کی رکن نہیں ہے ۔ استغاثہ کا کیس یہ نہیں ہے کہ اس نے ان میں سے کسی بھی تنظیم کے ذریعہ بلائی گئی کسی میٹنگ میں حصہ لیا ۔
’تکلیف پہنچانے میںمزا‘: ضمانت ملنے میں ایک سال کیوں لگا
چونکہ عشرت جہاں کو دو سال قبل گرفتار کیا گیا تھا، اس لیے انہیں جون 2020 میں شادی کرنے کے لیے 10 دن کی ضمانت ملی تھی۔ ضمانت کی مدت ختم ہونے پر، انہوں نے اس بنیاد پر سات دن کی اضافی ضمانت کی درخواست کی تھی کہ اس کے شوہر کو ایک کووڈ 19-پازیٹیو شخص کے رابطہ میں آنے کے بعد ان کے اندر بھی ’علامت پیدا ہو گئی تھی۔‘ لیکن، ڈاکٹر کی رائے اور جرم کی نوعیت پر غور کرتے ہوئے، عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ضمانت کی مدت میں توسیع کا کیس ان کے حق میں نہیں بنتا۔
دسمبر 2020 میں، جہاں نے عدالت کو بتایا کہ اسے منڈولی جیل میں قیدیوں نے بری طرح مارا اور جیل کے اندر مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ عدالت کے حکم کے مطابق جہاں نے عدالت کو بتایا کہ ‘اسے آج دوسرے قیدیوں نے بری طرح مارا پیٹا ہے، اور اسے دوسرے قیدیوں کے ہاتھوں ہراساں اور مار پیٹ کا سامنا ہے۔ انہوں نے ایک خاتون پوجا @ گولڈن اور گلشن کا نام لیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ وہ ہم جنس پرست ہے، اور اس کی حرکتیں انتہائی ناگوار ہیں۔ اسے دوسرے قیدیوں سے اپنی حفاظت کا خوف ہے۔
اس کے بعد جج امیتابھ راوت نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے الزامات اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں تفصیلی جواب طلب کیا۔ عدالت نے ہدایت کی، ‘جیل سپرنٹنڈنٹ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ دوسرے قیدیوں کی طرف سے دھمکیوں، ہراساں کرنے اور جسمانی نقصان کے پیش نظر، موجودہ ملزم کی حفاظت اور حفاظت کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔
پھر مارچ 2021 میں جہاں نے میرٹ پر عدالت میں باقاعدہ ضمانت کی درخواست دائر کی۔ اس کے جواب میں، ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے دلیل دی کہ ان کی ضمانت کی درخواست عدالت میں قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ یہ قانون کی غلط دفعات کے تحت دائر کی گئی تھی۔
اگست 2021 میں ایک سماعت کے دوران، جہاں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ اس دلیل کی بنیاد پر کہ اس کی درخواست غلط دفعات کے تحت دائر کی گئی تھی، اس کی جیل کی مدت میں توسیع کر کے ’تکلیف پہنچانے میں مزا لے رہاہے ،ان کے وکیل کی دلیل تھی کہ استغاثہ نےپہلے یہ تکنیکی اعتراض پہلے نہیں اٹھایا تھا، اور اب عدالت اس درخواست پر ان کے خیالات سننے کے بعد اسے اٹھا رہی ہے۔ لیکن، درخواست پر کئی مہینوں کی بحث کے بعد، استغاثہ کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے، جہاں کو کچھ دیگر ساتھی ملزمان کے ساتھ ستمبر میں نئی ضمانت کی درخواستیں دائر کرنی پڑیں۔
فسادات کے لئے جسمانی طور پر شمال مشرقی دہلی میں موجود نہیں تھی
اپنے ضمانت کے حکم میں، عدالت نے اب تبصرہ کیا ہے کہ چارج شیٹ کے مطابق، ’ایک سطحی نقطہ نظر سے پتہ چلتا ہے کہ نقصان دہ چکا جام کرنے کی منصوبہ بند سازش تھی، اور دہلی میں 23 مقامات پر ایک منصوبہ بند مظاہرہ کی بھی سازش تھی، جسے بعد میں بڑھا کر ٹکراؤ کے چکاجام اور تشدد کے اکساوے میں بدل جانا تھا، جس کے نتائج میں فساد ہونے تھے ۔‘
اس میں کہا گیا کہ ‘استعمال کیا گیا ہتھیار، حملے کا طریقہ اور اس سے ہونے والی تباہی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ پہلے سے منصوبہ بند تھا۔
جج راوت نے کہا کہ سازش کے پورے کیس میں ’مختلف گروہ اور لوگ شامل تھے جنہوں نے احتجاج کی آڑ میں تصادم ٹریفک جام کرنے کی ایک دوسرے کے ساتھ سازش کی جس کے نتیجے میں فسادات ہوئے۔
انہوںنے مزید کہا کہ عشرت جہاں وہ خوریجی میں احتجاجی مقام پر موجود تھیں، جو کہ شہریت ترمیمی قانون- نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے خلاف احتجاجی مقامات میں سے ایک تھا، لیکن وہ شمال مشرقی دہلی میں واقع نہیں ہے، جہاں فسادات ہوئے تھے۔
عدالت نے کہا، ‘وہ (خوریجی) علاقہ شمال مشرقی دہلی سے متصل نہیں ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ دوسرے ملزموں کے ساتھ رابطے میں تھی، حقیقت یہ ہے کہ وہ فسادات کے لیے نہ تو جسمانی طور پر شمال مشرقی دہلی میں موجود تھی، نہ کسی تنظیم یا وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ تھی، نہ ہی فون میں ان کا نام سامنے آیا تھا۔ کالوں کی جھڑپ یا کسی سی سی ٹی وی فوٹیج میں، نہ ہی وہ کسی سازشی میٹنگ میں شریک ہوئیں۔ اس لیے جہاں کو 50,000 روپے کے ذاتی مچلکے اور اس کے ساتھ دو مقامی ضمانتیں پیش کرنے کی شرط پر ضمانت دی گئی۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ عدالت کی اجازت کے بغیر وہ نہ تو دہلی چھوڑیں گی اور نہ ہی کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہوں گی۔ دیگر چیزوں کے ساتھ ضمانت کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کسی ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کریںگی اور نہ ہی کسی گواہ سے رابطہ کرے گی۔
نچلی عدالت سے پہلی ضمانت
ایف آئی آر نمبر 59، جو 6 مارچ 2020 کو درج کی گئی تھی، ابتدائی طور پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 147، 148، 149 اور 120 (بی) کے تحت درج کی گئی تھی، جن کاتعلق فساد کرنے ، مہلک ہتھیاروں سے لیس ہونے اور مخالفت سے ہے ،یہ تمام سیکشن قابل ضمانت ہیں۔
کیس کو اسپیشل سیل کے حوالے کرنے کے بعد، ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش)، 124-A (بغاوت) اور 153-A (مذہب کی بنیاد پر برادریوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) شامل ہے۔ اور آرمز ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔
21 اپریل 2021 کو، پولیس نے ایف آئی آر میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعہ 13، 16، 17 اور 18 کو بھی شامل کیا۔ ان سیکشنز کا تعلق غیر قانونی سرگرمی، دہشت گردی کی سرگرمیاں انجام دینے، دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے اور دہشت گردی کی کسی بھی سرگرمی کے ارتکاب کی سازش سے ہے۔
اس ایف آئی آر میں کل 18 لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔ ان میں عشرت جہاں، امام، سابق اے اے پی کونسلر طاہر حسین، پنجرا توڑ کی کارکن نتاشا ناروال اور دیونگانہ کلیتا، جامعہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا، جامعہ رابطہ کمیٹی کی میڈیا کوآرڈی نیٹر صفورا زرگراور کارکن گلفشہ فاطمہ اور تسلیم احمد شامل ہیں۔
جہاں اس کیس میں پہلی خاتون ہے جنہیں نچلی عدالت سے میرٹت کی بنیاد پر ضمانت ملی ہے ۔ گزشتہ سال جون میں دہلی ہائی کورٹ نے کلیتا، نروال اور تنہا کو ضمانت دی تھی، لیکن چند ہی دنوں میں سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ انہوں نے ضمانت کے حکم میں مداخلت نہیں کی، لیکن یہ کہا کہ جب تک وہ کیس کی سماعت نہیں کرلیتے، تب تک ہائی کورٹ کی یو اے پی اے کی تشریح کو ’ کوئی نظیر نہیں ماناجائے گا ‘
زرگر کو بھی جون 2020 میں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ لیکن اس کی رہائی میرٹ پر نہیں بلکہ خالصتاً ‘’انسانی بنیادوں‘ پر ہوئی، کیونکہ 27 سالہ خاتون اس وقت حاملہ تھیں۔