امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام حماس کے ساتھ تنازع اور غزہ کی پٹی میں قید یرغمالیوں کی واپسی کے لیے تنظیم پر دباؤ بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی پر کام کر رہے ہیں۔اخبار کے مطابق گذشتہ ہفتے غزہ کی پٹی کی سرحدی گزر گاہوں کی بندش کے بعد اسرائیلی حکام فلسطینی پٹی کے لیے بجلی اور پانی کی فراہمی روک سکتے ہیں۔ اگر یہ اقدامات کامیاب نہ ہوئے تو اسرائیل غزہ کی پٹی میں فضائی حملے اور تکتیکی کا کارروائیاں دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ اسی طرح اسرائیل ان لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر گھر چھوڑ کر جانے پر مجبور کر سکتا ہے جو فائر بندی کے دوران میں اپنے گھروں کو واپس لوٹے تھے۔
وال اسٹریٹ جرنل اخبار نے واضح کیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اور یرغمالیوں کی رہائی میں پیش رفت نہ ہونے کے بیچ اسرائیلی حکام غزہ کی پٹی میں لڑائی کی کارروائیوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بالخصوص جب کہ اسرائیل کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ذخائر کی تجدید ہو چکی ہے۔ اسی طرح امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے والا نہیں رہا۔
اسرائیل کے سرکاری عبرانی نشریاتی ادارے نے کل جمعے کے روز بتایا تھا کہ اسرائیل میں سیاسی قیادت نے فوج کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ دوبارہ شرع کرنے کی فوری تیاری کر لے۔
نشریاتی ادارے نے نے ایک سیکورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ جنگ کی طرف واپسی غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے جب کہ فائر بندی کے معاہدے کے لیے بین الاقوامی کوششیں جاری ہیں۔حماس تنظیم بارہا باور کرا چکی ہے کہ وہ فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد کی پاسداری کر رہی ہے۔ تنظیم کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کو معاہدے کی تمام شقوں کا پابند بنایا جائے۔ حماس نے وساطت کار ممالک پر زور دیا ہے کہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا فوری طور پر آغاز کیا جائے۔ یہ مرحلہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی انخلا اور جنگ کو مکمل طور پر روک دینے پر مشتمل ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ 19 جنوری 2025 کو نافذ العمل ہونے والے فائر بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں توسیع کر دی جائے تا کہ غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی زیادہ سے زیادہ ممکنہ تعداد کی رہائی عمل میں آ سکے۔ نیتن یاہو اس کے مقابل کچھ پیش نہیں کرنا چاہتے ہیں اور نہ گذشتہ عرصے میں معاہدے میں مقررہ عسکری اور انسانی ذمے داریاں پوری کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کے اندازوں کے مطابق اس وقت غزہ کی پٹی میں 59 اسرائیلی قیدی موجود ہیں جن میں سے 22 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔یرغمالیوں میں 5 افراد امریکی شہریت رکھتے ہیں جن میں اہم ترین 21 سالہ ایڈان الیگزینڈر ہے۔اسرائیل رواں ماہ 2 مارچ کو اعلان کر چکا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی کی تمام گزر گاہیں اور انسانی امداد کا داخلہ بند کر دیا ہے۔ اس کی وجہ حماس کی جانب سے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی کے منصوبے کو قبول کرنے سے انکار ہے۔ یہ منصوبہ غزہ کی پٹی میں فائر بندی کے مذاکرات جاری رکھنے سے متعلق ہےمعلوم رہے کہ اسرائیل فائر بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں جانے سے انکار کر چکا ہے۔