گزشتہ 7 سالوں میں جو قسمت نریندر مودی کا ساتھ دے رہی تھی ، وہ روٹھ چکی ہے اور اب یہ نظر آنے لگا ہے کہ مودی کمزور وزیراعظم ہے۔ جن تین وجوہات سے ملک کی معیشت ماضی میں پٹری سے اتر تی رہی ہیں وہ وجوہات مودی کے دور اقتدار میںنظرنہیں آئیں۔ 1962-71کے دوران ہوئے تین جنگوں نے ملک کی معیشت کمزور کردی تھی ، مودی کے دور اقتدار میں بھارت- چین تناؤ کے باوجود جنگ نہیں ہوئی اور معیشت پر اس کا فرق نہیں نظر آیا۔
ٹی این نائن نے بزنس اسٹینڈرڈ میں لکھاہے کہ مودی حکومت کے پہلے دو سال 2014-16 کے دوران خشک سالی کی وجہ سے زرعی نمو کی شرح تقریباً صفر رہی۔ مگر اس کے بعد کے سالوں میں زرعی ترقی کی شرح 4 فیصد تک دیکھی گئی۔ تیسری وجہ جس نے معیشت کو متاثر کیا وہ تیل ہے۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کو 1981 اور 1991 میں آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑاتھا۔ مودی کے دور حکومت میں ابتدائی مدت میں جو تیل 110 ڈالر فی بیرل تھا وہ اوسطاً 50 ڈالر پر آگیا ۔
کہنےکامطلب یہ ہے کہ جس طرح نپولین نے اپنے جرنلوں سے خوش قسمت رہنے کی توقع کرتاتھا،ویسی قسمت مودی کے ساتھ رہی۔ دوسرے ممالک میں بھی ویکسین، ٹیسٹنگ کٹس ، آکسیجن اور اسپتالوں میں بستروں کی کمی ہے ، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ نوٹ بندی کے دور میں بھی ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی۔ وزیر اعظم کا قد گھٹ گیا ہے۔رائٹر دھیان لکھتے ہیں کہ تیسری لہر شاید آچکی ہے جو ہم دیکھ نہیں پار ہے ہیں۔ اگر مودی اس طوفان سے کشتی بچا لے جاتے ہیں تو یقیناً وہ اپنی ساکھ دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں ،مگر مودی کا رخ ہوا کے مخالف ہے۔