نئی دہلی : (امر اجالا کی رپورٹ)
جہانگیر پوری علاقے میں تشدد کے بعد کافی ہنگامہ ہوا۔ ہر کسی نے اپنے اپنے دعوے کئے۔ سی بلاک میں رہنے والے مولانا مستان نے بتایا کہ مین بنگالی جامع مسجد کے باہر پہنچنے پرشوبھا یاترا نکال رہے لوگوں نے مذہبی نعرے لگانا شروع کردیے۔ نمازی اندر موجود تھے۔ وہاں اونچی آواز میں ڈی جے بجایا جا رہا تھا۔ اس دوران مسجد کے چھوٹے دروازوںکو بند کر دیا گیا۔ کچھ شرپسند عناصر نے دیوار پر چڑھ کر اندر بھگوا جھنڈا لگانے کی کوشش کی تھی۔ لوگوں نے احتجاج کیا تو وہ لوگ بھاگنے لگے۔ سی بلاک کشال چوک پر پہنچنے پر ہنگامہ شروعہو گیا۔ جہانگیرپوری سی – بلاک کے ہی رہنے والے محمد ساجد نے دعویٰ کیا کہ اندر مسجد میں نماز پڑھنا بھاری ہو رہا تھا ۔ مجبوراً لوگوں نے باہر نکل کر یاترا نکال رہے لوگوں سے اعتراض جتایا ۔ اس باپ پر تو تو – میں میں ہونے لگی۔ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے ، لوگ کسی بھی حال میں کوئی تشدد نہیں چاہتے تھے۔ لیکن یاترا نکال رہے لوگوں نے جان بوجھ کر اکسانا شروع کردیا ۔
جس کے بعد کچھ نوجوان لڑکے مشتعل ہو گئے اور انہوں نے جلوس نکالنے والے لوگوں کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے۔
ساجد نے کہا کہ اگر پولیس معاملے میں احتیاط برتتی تو شاید ہنگامہ نہ ہوتا۔ اس سارے تشدد کی ذمہ دار شرپسند عناصر کے علاوہ پولیس بھی ہے۔
ہنگامہ آرائی کے اگلے دن دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں ماحول پرسکون ہے، لیکن لوگوں کے ذہنوں سے تشدد کا خوف اب تک دور نہیں ہوا ہے۔ ساتھ ہی یہاں رہنے والی دونوں برادریاں بھی حیران ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر امن اور ہم آہنگی کی سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن انہوں نے آج تک ایسا تشدد کبھی نہیں دیکھا۔ چند لمحوں میں شرپسند عناصر نے علاقوں کی ہم آہنگی کو خراب کر دیا۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہر سال اس علاقے میں شیو راتری، گنیش پوجن، ہنومان جینتی اور دیگر مواقع پر شوبھا یاترا نکالی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محرم کے موقع پر تعزیہ بھی نکالا جاتا ہے۔
ان پروگراموں میں ہندو اور مسلم برادری کے لوگ بھی شامل ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن آج تک علاقے میں تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ لوگوں نے بتایا کہ شام کے وقت اچانک ہونے والے تشدد نے رشتوں کی مٹھاس کو ختم کرکے ہم آہنگی کو خراب کردیا ہے۔
تشدد کے وقت اپنے گھر میں موجود ریحان نے بتایا کہ وہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے اس علاقے میں رہ رہا ہے۔ کئی دہائیاں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ گزر گئیں، لیکن ایسا تشدد کبھی نہیں دیکھا۔ ہندو اور مسلم برادری میں اتنا اتحاد ہے کہ دونوں برادریاں ہر تہوار پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے لیے ایک دوسرے کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔
عید ہو یا دیوالی، تمام تہواروں کا ماحول ایک جیسا ہوتا ہے۔ ریحان نے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر نے علاقے کا امن خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں کو تشدد پر اکسایا گیا ہے۔ اسی دوران جی بلاک میں رہنے والے روی سنگھ نے بتایا کہ واقعہ کے وقت وہ کشال چوک پر تھے، اچانک مسجد کی طرف سے لوگ بھاگتے ہوئے دیکھے گئے اور کچھ ہی دیر میں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی۔
روی نے کہا کہ تشدد کے دوران تشدد کے دوران سی – بلاک کی جانب سے پتھرو کانچ کی بوتلوں کے ساتھ بھیڑ نے جی بلاک کی جانب بڑھنا شروع کیا اور کچھ پل میں ہی ماحول مزید کشیدہ ہو گیا۔ روی نے کہا کہ وہ کئی دہائیوں سے جہانگیر پوری کے علاقے میں رہ رہے ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ امن کو درہم برہم کیا گیا ہے۔