تحریر:عطا بنارسی
جامع مسجد گیان واپی کی سروے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد جس طریقے سے ہندو فریق نے مورتیوں کے پائے جانے اور قدیم سکوں کی بر آمدگی کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پور ے ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مسجد کی جگہ پہلے ایک‘ عظیم الشان مندر ‘ تھا۔ اس کے بعد سے ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ساری سازش رچی جاچکی ہے اور عملی طور پر سارے انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اب بس اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے۔آج وارانسی کی ضلعی عدالت کے جج نے اپنی سروس کے آخری دن ہندو فریق کو مسجد کے تہہ خانے کے اندر پوجا کی اجازت دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ سارا کھیل ختم ہو چکا ہے۔حالانکہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے ضلعی عدالت کے اس حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن معاملہ آئینے کی طرح بالکل صاف ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
عین بابری مسجد کی طرح ہی گیان واپی مسجد پر بھی قبضے کی مکمل تیاری ہو چکی ہے۔جس طرح سے اس پورے معاملے میں ضلعی عدالت نے ہندو فریق کے حق میں یکے بعد دیگرے فیصلے سنائے ہیں اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آئینی اور عدالتی کارروائی تو محض ایک ڈھونگ ہے ۔اے ایس آئی نے سروے رپورٹ جمع کرنے میں جو تاخیر کی اور عدالت نے جو نرمی دکھائی ۔وہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سارا کھیل سروے رپورٹ کی تیاری میں ہی مکمل ہو چکا ہے۔ نہ مسجد انتظامیہ کی جانب سے تاریخی شواہد پر غور کیا گیا اور نہ ہی 1991کے پلیس آف ورشپ ایکٹ پر توجہ دی گئی بلکہ ضلعی عدالت کی ساری توجہ ہندو فریق کے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے پر رہی اور آج ضلع جج نے اپنی سروس کے آخری دن ہندو فریق کو تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دے کرورشپ ایکٹ کی حیثیت ہی صفر کر دیا۔ یقین جانئے کہ گیان واپی مسجد کے تہ خانے میں پوجا کی اجازت در حقیقت بابری مسجد کا تالا کھولے جانے کے برابر ہے۔ظاہر ہے کہ اس کے بعد اس کیس میں اب اور کیابچا ہے