ملاحظات: (مولانا)عبدالحمید نعمانی
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک بڑا بامعنی قول ہے کہ آدمی جس چیز کے متعلق جہالت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے، ماضی سے لے کر حال تک ،اس کا مشاہدہ و تجربہ دیگر بہت سے اسلامی امور و مسائل کے علاوہ جہاد کے معنی و مصداق کے سلسلے میں ہوتا رہا ہے، عہد حاضر میں طاقت ور مختلف ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دے کر اپنے سے الگ اور مختلف کمیونٹیز کی کردار کشی اور ان کی مکروہ شبیہ بنانے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، تاہم اس شر اور تاریکی میں کئی خیر اور روشنی بھی نظر آتی ہے، 9/11 کے بعد بڑی تعداد نے اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن مجید کو جاننے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام کو اپنایا اور بڑی تعداد کی بے بنیاد غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوا، بھارت میں بھی ایک بڑی تعداد ، فرقہ پرست ہندوتو وادی عناصر کے شر انگیز پروپیگنڈا کے نتیجے میں بہ ذات خود قرآن و کتب سیرت کے مطالعے سے اصل حقیقت سے واقف ہوئی اور اسے معلوم ہوا کہ جہاد کے معنی کیا ہیں اس کی کتنی قسمیں ہیں، وہ کس اور کب اور کون کر سکتا ہے، جہاد کا ایک ہی معنی، مسلح جنگ نہیں ہے، اس کا ذاتی مشاہدہ کچھ دنوں پہلے پونے جاتے ہوئے دہلی ایئرپورٹ پر ہوا تھا کہ کس طرح ایک غیر مسلم نے بہ ذات خود مولانا مودودی اور فاروق خاں کا ہندی و انگریزی ترجمہ و تفسیر والا قرآن کا مطالعہ کر کے اپنی غلط فہمیوں کو دور کیا، جہاد کو صرف جنگ و قتال کے معنی میں لینا سراسر جہالت و بے خبری ہے، قرآن مجید کی 29/آیات میں جہاد کا ذکر ہے، 4/آیات مکی ہیں جب کہ جہاد بالقتال کی اجازت نہیں تھی، اس کا صاف مطلب ہے کہ یہاں دین کی دعوت اور جد وجہد ہی جہاد ہے، مدنی دور کی کئی آیات میں دعوتی محنت و جد وجہد کو ہی جہاد قرار دیا گیا ہے، اس کو نظرانداز کر کے مغرب و یورپ کے صلیبی وصیہونی عناصر کے علاوہ بھارت کے اکثریتی سماج بڑے بڑے دھرم گرو ،شنکر آچاریہ، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، اساتذہ، طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد جہاد کے صحیح معانی و مقاصد سے صحیح طور سے واقف نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ ہے صیہونی، صلیبی اور برہمن وادی اور ہندوتو کی ذہنیت والے سماج میں جہاد جیسے تعمیری اور فساد کو ختم کرنے والے عمل اور مقدس اعلی مقصد کا کوئی اعلی و مکمل تصور نہیں پایا جاتا ہے اور نہ اس کا مثالی نمونہ موجود ومحفوظ ہے، رامائن، مہا بھارت جنگ کی کہانیوں میں اتنا کچھ ملا اور حذف و اضافہ کر دیا گیا ہے کہ دھرم یدھ کا معنی و مقصد پوری طرح مسخ ہو کر رہ گیا ہے، ایسی حالت میں رامائن، مہا بھارت کی جنگوں کو مقدس قرار دینا بہت مشکل ہے، یہی معاملہ صلیبی و صیہونی جنگوں کا بھی ہے ،اسلام میں جہاد بالقتال، زمین جائیداد کے حصول کے لیے نہیں ہے جیسا مہا بھارت کی جنگ ہے، اپنے حق کے لیے جنگ و جد وجہد کو زیادہ سے زیادہ جواز کے درجے میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن مہا بھارت کی لڑائی میں جس قدر جان و مال کی بھاری تباہی ہوئی ،اس کے مقابلے میں ایک خاندانی جنگ، جس میں دیگر بربادیوں کے علاوہ ا/-ارب، 62/کروڑ، 20/ہزار افراد کے مارے جانے کے بعد مہا بھارت جنگ کا، شری کرشن کی شرکت کے باوجود کوئی بڑا اعلی مقصد باقی نہیں رہ جاتا ہے، رامائن کی کہانی میں راون کے ذریعے اغوا کردہ مظلوم سیتا کی آزادی، ایک بڑا مقصد نظر آتا ہے، لیکن برہمن وادی عناصر نے اپنے مقصد و ذہنیت کے تحت، رام، راون جنگ کے مقصد کو بھی مشکوک و مجروح کر کے سماج سے آدرش کو ختم کرنے کا کام کیا ہے، تلسی داس کی رام چرت مانس اور معروف رامائن سیریل نے یہ بتا اور تاثر دے کر کہ رام چندر نے اصل سیتا کو اگنی دیوتا کے پاس رکھ کر، راون کے ذریعے نقلی سیتا کا اغوا کرانے کا مقصد راون اور راکسش راج کو ختم کرنا تھا، اصل رامائن، والمیکی رامائن میں رام کی زبانی، جو کچھ لنکا یدھ کے تناظر میں کہلوایا گیا ہے اس نے جنگ کے مقدس مقصد کو ختم کر دیا ہے، رام، سیتا سے کہتے ہیں کہ میں نے یہ لڑائی تمہارے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے وقار و عظمت کے لیے کی تھی، اب تم جہاں چاہو، چلی جاؤ، اس سلسلے میں مہا بھارت میں سیتا کے متعلق ایسا سخت تبصرہ کیا گیا ہے کہ اس کو نقل کرنا بھی دل گوارا نہیں کرتا ہے، اس تعلق سے بہت سے غیر مسلم اہل علم، ڈاکٹر امبیڈکر نے رڈلس ان ہندو ازم اور پروفیسر پرشوتم اگروال نے سنسکرتی ورچسو اور پرتی رودھ میں اپنی سخت آراء کا اظہار کیا ہے، 27/28 سال پہلے دارالعلوم دیوبند کے درجات تکمیلات کے لیے ہندو ازم، تعارف و مطالعہ، لکھنے کے دوران میں، حکومت ہند کے شعبہ اطلاعات و نشریات سے شائع کلیات ڈاکٹر امبیڈکر میں رام، سیتا کے سلسلے کی کہانی کا متعلقہ حصہ پڑھا تھا تو یقین نہیں آیا تھا، لیکن جب گیتا پریس گورکھ کی شائع کردہ والمیکی رامائن اور دنیا کی سب سے ضخیم کتاب، مہا بھارت کا مطالعہ کیا تو انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی، تحریری شکل میں موجود باتوں کے مد نظر ہی اکثریتی سماج سوچتا، چلتا ہے اور اسی کے مطابق مذہبی و سیاسی طبقے بھی سوچتے، چلتے ہیں، ایسی حالت میں ان کے لیے اسلامی جہاد کے اعلی مقاصد و اقسام کو جاننا، سمجھنا، مشکل ہے، پیش کردہ تصور جہاد کے وسیع معانی و مقاصد اور مختلف اقسام کو جاننا، سمجھنا اور صحیح معنی میں لے کر سماج کی رہ نمائی، آسان نہیں رہ گئی ہے، وہ جہاد کے مختلف اقسام، جہاد بالقرآن، جہاد بالنفس، جہاد بالعلم، جہاد بالقلم، جہاد باللسان، جہاد العمل، وغیرہ کو نظرانداز کر کے صرف جہاد بالقتال مراد لے کر گمراہ کن بحث و گفتگو کر کے اکثریتی سماج کو بھٹکانے میں لگے ہوئے ہیں، یہ پوری طرح فساد قلب و نظر اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے، یہ بالکل واضح ہے کہ مسلح جنگ اور جہاد بالقتال صرف قائم شدہ حکومت، اس حکومت و افراد سے کر سکتی ہے جن سے کوئی معاہدہ امن نہ ہو یا فساد و جنگ کر کے، بد امنی، انارکی اور ظلم و جبر کا نظام قائم کرنے پر آمادہ ہوں، علامہ ابن قدامہ رح کی فقہ اسلامی کی معروف و معتبر کتاب، المغنی(جلد 8’ص 258)میں واضح طور سے یہ اصولی قاعدہ درج ہے کہ، جہاد بالقتال کا معاملہ حکمراں کی رائے پر موقوف و منحصر ہے، وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے، (امر الجھاد موکول الی الامام واجتھادہ ویلتزم الرعیۃ طاعتہ فیما یراہ من ذالک )
نیشنل میڈیا کے اینکرز اور ہندوتو وادی سماج میں یہ جہالت و بے خبری عام ہے ، سمجھ لیا جاتا ہے کہ کسی بھی مسلم لیڈر رہ نما کی طرف سے جہاد کی بات کا مطلب ہے، مسلح جنگ کر کے غیر مسلموں کو ختم کر دینا، ان کو اس کا ذرا بھی علم و آگہی نہیں ہے کہ اسلامی شریعت و قانون کی رو سے کسی فرد،گروہ یا غیر سرکاری تنظیم و ادارے کے لیے جائز نہیں ہے کہ مسلح جنگ یا جہاد بالقتال کرے، بھارت کے تمام باشندوں کے درمیان آئینی معاہدہ ہے، ایسی حالت میں جہاد و جنگ کا کوئی جواز و گنجائش نہیں ہے، آج کی تاریخ میں تو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے تحت ایک دوسرے ممالک کا باہمی معاہدہ امن ہے اور معاہدہ کی موجودگی میں جہاد بالقتال قانونا وشرعا نہیں ہو سکتا ہے، ملک کی آزادی سے پہلے علامہ محمد انور شاہ کشمیری رح نے کچھ ہندوتو وادی لیڈروں کے ان شبہات و اعتراضات کے مد نظر کہ مسلمان دوسرے ممالک ،افغانستان وغیرہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہو کر ہندوؤں سے جنگ کر سکتے ہیں، کہا تھا کہ ہندستان جیسے ہندو اکثریت اور مختلف مذاہب کے مشترک آبادی والے ملک میں باہمی معاہدہ کی صورت میں جنگ و قتال کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر مسلمانوں کا ہندوؤں سے معاہدہ ہوگا، (جیسا کہ آج آئین ہند کے تحت بھارت کے تمام باشندوں کے درمیان ہے ) تو نہ کسی مسلم ملک کے لیے جائز ہوگا کہ وہ معاہدہ کونظرانداز کر کے بھارت پر حملہ کرے اور نہ ملک کے مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا کہ وہ معاہد ہندوؤں پر حملہ کریں یا کسی طرح کا نقصان پہنچائیں،
(تفصیلات دیکھیں خطبہ صدارت آٹھواں اجلاس عام جمیعتہ علماء ہند، منعقدہ بمقام پشاور 1927)
مولانا محمود مدنی کا بیان و خطاب میں مذکور لفظ جہاد کا تعلق مسلح جنگ و قتال سے بالکل نہیں ہے بلکہ بیان کا تعلق ظلم و زیادتی کے خلاف جدوجہد سے ہے، اس کی تائید و حمایت تو بہار کے گورنر عارف محمد خان تک نے کی ہے، البتہ ان کو اعتراض دارالعلوم دیوبند وغیرہ مدارس میں اشرف الھدایہ پڑھانے پر ہے جس میں جہاد کا ذکر ہے، یہ اطلاع و فہم کی کمی پر مبنی ہے، دارالعلوم دیوبند وغیرہ میں فقہ کی معروف عربی کتاب ھدایہ زیر درس تدریس ہے، نہ کہ اردو شرح اشرف الھدایہ، جہاد کی بحث کتاب السیر میں ہے، اس کا تعلق بھی حکمراں و حکومت سے ہے، نہ کہ عام مسلمانوں سے، یہ مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو اچھی طرح معلوم ہے، اس لیے ان کے ذہن کے خراب ہونے اور بھٹکنے کی بات سراسر بد گمانی پر مبنی ہے، جنگ و جہاد میں بنیاد، معاہدہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے جنگ و جہاد بالقتال کی بات سراسر بے خبری و جہالت پر مبنی ہے، موجودہ فرقہ وارانہ شر انگیز ماحول میں مسلم اہل علم و رہ نما کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ جہاد اور دیگر اسلامی احکام و اصطلاحات سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے اور بے خبری کو دور کرنے پر سنجیدہ توجہ دے کر کام کریں،











