نئی دہلی :وقف پر تشکیل دی گئی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) کی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ لوک سبھا میں پیش کردہ وقف بل کو اب ایک نئی شکل میں واپس لایا جائے گا۔ جبکہ جے پی سی نے پیر (27 جنوری، 2025) کو نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) اتحاد کے اراکین کی طرف سے تجویز کردہ تمام ترامیم کو قبول کر لیا، اس نے حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے تجویز کردہ ہر تبدیلی کو مسترد کر دیا۔
**یہ تجاویز منظور ہوگئیں( ذرائع )
1ـ- کلکٹر یا اس سے اوپر کا کوئی افسر، جسے حکومت منتخب کرے گی، یہ فیصلہ کرے گا کہ جائیداد وقف کے تحت آتی ہے یا نہیں۔ اب تک وقف ترمیمی بل میں کہا گیا تھا کہ ضلع کا کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ جائیداد وقف کے تحت آتی ہے یا نہیں۔
2- وقف ٹریبونل میں دو کے بجائے تین ممبران ہوں گے، جس میں اب ایک اسلامی سکالر کو شامل کیا جائے گا۔ اب تک وقف ترمیمی بل میں ٹربیونل میں دو ارکان رکھنے کی بات ہوتی تھی۔
3- کمیٹی میں منظور کی گئی تجویز کے مطابق وقف بورڈ/کونسل میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہوں گے۔ اس لحاظ سے ریاستی/مرکزی عہدیداروں (غیر مسلم یا مسلم) کے علاوہ جو اب تک وقف بورڈ/کونسل میں موجود تھے، وہاں کم از کم دو غیر مسلم اراکین ہوں گے، جب کہ وقف ترمیمی بل کے مطابق، پہلے 2 غیر مسلم وقف بورڈ میں ہوں گے یہ تو ممبران کا معاملہ تھا۔ اس میں وقف بورڈ کے ساتھ کام کرنے والے افسران یعنی سابق عہدیداروں کو بھی شامل کیا گیا۔
**بل کی اس شق پر ہنگامہ ہو سکتا ہے –
1- ذرائع کے مطابق جے پی سی کی طرف سے منظور شدہ وقف بورڈ/کونسل میں غیر مسلم ممبران کی تعداد بڑھانے کی تجویز پر ہنگامہ ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جو لوگ وقف ترمیمی بل کی مخالفت کر رہے تھے ان کا اعتراض یہ تھا کہ وقف بورڈ/کونسل میں غیر مسلم لوگوں کی کیا ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اب غیر مسلم افراد کی تعداد جو پہلے بل میں زیادہ تر دو تھی، کم کر کے کم از کم دو کر دی ہے۔
2- کمیٹی کی طرف سے پاس کردہ تجویز کے مطابق جو بھی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے اسے ثابت کرنا ہو گا۔ اس کے بعد ہی وہ اپنی جائیداد وقف کو دے سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جائیداد کسی قسم کے تنازعہ کی زد میں نہ ہو، جب کہ وقف ترمیمی بل میں کہا گیا تھا کہ صرف وہی شخص وقف کو اراضی عطیہ کر سکتا ہے جو پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہو۔ تاہم ذرائع بتا رہے ہیں کہ اس ترمیمی تجویز کو لانے کا مقصد ایسے معاملات کو کم کرنا ہے جہاں مذہب کی تبدیلی کے بعد جائیداد وقف کو عطیہ کی جاتی ہے۔
3- ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، اگرچہ کل 14 دفعات میں ترمیم کی تجویز کو منظوری دی گئی ہے، لیکن یہ کچھ اہم ترامیم ہیں، جو بل کے موجودہ فارمیٹ میں کی جائیں گی۔ تاہم اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ترامیم کی جانی ہیں لیکن اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق یہ چار ان میں سب سے اہم بتائی جاتی ہیں۔
پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی میں منظور کی گئی ترامیم حکمران جماعت اور اپوزیشن کی طرف سے ہر ایک ترمیم پر ووٹنگ کے بعد منظور کی گئیں۔ پیر کو ہی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران 31 میں سے 26 ارکان موجود تھے جن میں سے 16 کا تعلق حکمران جماعت سے اور 10 کا تعلق اپوزیشن سے تھا جس کی وجہ سے اپوزیشن کی طرف سے لائی گئی تمام تجاویز کو مسترد کر دیا گیا۔ اور حکمراں جماعت کی طرف سے پیش کی گئی تمام تجاویز کو 16-10 ووٹوں سے منظور کر لیا گیا۔
مانا جا رہا ہے کہ 31 جنوری سے شروع ہونے والے بجٹ اجلاس کے دوران وقف بل پر تشکیل دی گئی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کی یہ مسودہ رپورٹ لوک سبھا اسپیکر کو پیش کی جائے گی۔ اس کے بعد قواعد کے مطابق کمیٹی کی جانب سے دی گئی ترامیم کے ساتھ بل کو نئی شکل میں ایوان میں لایا جائے گا۔ اس پر نئے سرے سے بحث ہو گی جس کے بعد ہی ایوان میں بل کی منظوری کے لیے کارروائی آگے بڑھے گی۔