نئی دہلی : ۱۱ ؍ دسمبر :جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محموداسعد مدنی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر یادو کے حالیہ متنازعہ بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے عہدے کی معتبریت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جن عدالتوں سے امید ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ذریعہ سبھی طبقوں کوجوڑنے کا کام کریں گی ،ان کا ایک مضبوط نمائندہ ملک کو توڑنے والی طاقتوں کا ہَم پیالَہ و ہَم نِوالَہ بن رہا ہے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ انھیں آئین کا نمائندہونا چاہیے جب کہ وہ آئین کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔
واضح ہو کہ جسٹس شیکھر یادو نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک پروگرام میں کہا کہ ملک اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔ انھوں نے مسلمانوں کے عائلی مسائل پر بلاوجہ تنقیدکی اور ایک مخصوص کمیونٹی کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جب بچوں کے سامنے بچپن سے ہی جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے تو وہ کیسے مہربان اور روادار بن سکتے ہیں؟ انھوں نے مسلمانوں کے ایک طبقے کو ’کٹھ ملا‘ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کاو جود دیش کے لیے نقصان دہ ہے۔ حالاں کہ جسٹس یاود جس کمیونٹی کے ذمہ داروں سے خطاب کررہے تھے، اس کے بارے میں بولنے کے بجائے وہ دوسری کمیونٹی پر طعن و تشنیع کے تیر و نشتر چلارہے تھے ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ عدلیہ کا ایک رکن ہونے کے ناتے جسٹس یادو کو اس بات کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ ان کا ایسا بیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ نیز اس سے نہ صرف عدلیہ کے وقار کا مجروح ہوتا ہے بلکہ عدلیہ کے تئیں لوگوں کا اعتماد بھی متزلز ل ہوتا ہے۔ عدلیہ ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ آئین کی بالادستی اور تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ملک میں بہت سارے قابل اور ایماندار جج ہیں ، جن کے فیصلوں سے دیش کا وقار بلند ہوتا ہے اور ملک کے شہریوں کو انصاف ملتاہے، لیکن جسٹس یادو نے اپنے بیان سے اس پیشے کی وقعت اور اس سے وابستہ لوگوں کی نیک نامی پر پانی پھیر دیا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہم جسٹس یادو کے اس رویے کی فوری اور سنجیدہ تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے تاکہ عدلیہ کی معتبریت کا تحفظ کیا جا سکے۔ہم ملک کے ممبران پارلیمنٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرائیں اوران کے خلاف ہر ممکن کارروائی کی جائے۔اس موقع پر مولانا مدنی نے حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والے سابق جج صاحبان اور وکلا ء حضرات کی تحسین کی اور کہا کہ متحدہ قو ت کے ذریعہ ہی فرقہ پرستی کی لعنت سے ملک کو آزاد کرایا جاسکتا ہے ۔