لکھنؤ:
قانون ساز اسمبلی کے لیڈر رہے لال جی ورما اور سابق وزیر رام اچل راج بھر کے بعد جمعہ کی صبح بہوجن سماج پارٹی کے ممتاز لیڈر اور سابق درجہ حاصل وزیر دیو نارائن سنگھ عرف جی ایم سنگھ نے بھی مایاوتی کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ کبھی 19ایم ایل اے والی بی ایس پی کے پاس اب اترپردیش اسمبلی میں محض سات ایم ایل اے رہ گئے ہیں۔
ریاست کے تمام اہم بی ایس پی لیڈر مسلسل دوسری پارٹیوں میں جارہے ہیں اور مایاوتی کےپاس کنبہ کی گرتی اینٹوں کو بچائے رکھنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں بچا ہے ۔ کورونا بحران کے سست پڑنے کے ساتھ اترپردیش میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے سرگرمیاں تیز ہونے لگی ہیں اور اسی کے ساتھ لیڈروں کا پارٹی تبدیل کرنا بھی شروع ہوگیا ہے ۔
تمام پارٹیوں کے نشانہ پر بی ایس پی ہے، جہاں مایاوتی کے رویہ اور بی جے پی کے ساتھ بڑھتی قربت کے الزامات کے سبب تمام لوگ یا تو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ حالات یہ ہیں کہ بی ایس پی کے قیام کے وقت سے جوڑے بڑے لیڈروں میں اور کانشی رام کے پرانے حلیفوں میں سے اب کوئی بھی مایاوتی کے ساتھ نہیں بچا ہے ۔
اور بھگدڑ مچےگی؟
مسلسل تاش کے پتوںکی طرح تقسیم کئے جانے کے سبب بی ایس پی کی تنظیم کے مضبوط محور سمجھے جانے والے زونل کوآرڈی نیٹروں میں بھی بھگدڑ مچنے لگی ہے ۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسمبلی انتخابات سے پہلے بی ایس پی کے لیڈروں میں اور بھی بھگدڑ مچنے والی ہے اور شاید ہی کوئی بڑا لیڈر بچا رہے۔
یوپی میں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی نے 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ضلع امبیڈکرنگر میں ضمنی انتخاب میں ایک سیٹ ہارنے کے بعد پارٹی کے پاس 18 ایم ایل اے رہ گئے تھے۔ گزشتہ ساڑھے چار سالوں میںالگ الگ وقت پر پارٹی مخالفت سرگرمیوں میں بی ایس پی کے 9 ایم ایل اے پہلے سے معطل چل رہےہیں۔ دواور کے برطرف کئے جانے سے اب پارٹی میں صرف 7 ایم ایل اے بچے ہیں۔ بی ایس پی میں فی الوقت ایم ایل اے میں صرف شاہ عالم عرف گڈوجمالی ، سکھدیو راج بھر، شیام سندرشرما ، اما شنکر سنگھ ، مختار انصاری ، ونے شنکر تیواری اور آزاد آرمردن ہی بچے ہیں۔ان میں سے شاہ عالم کو لال جی ورما کی جگہ پر جمعرات کو بی ایس پی قانون اسمبلی میں لیڈر کے طور پر منتخب کیا گیا ہے ۔
بی ایس پی نے اپنے نو اراکین اسمبلی اسلم راعینی ، اسلم علی ، مجتبیٰ صدیقی ، حکیم لال بند ، ہرگووند بھارگو ، سشما پٹیل ، وندنا سنگھ ، انیل سنگھ اور رام ویر اپادھیائے کو معطل کردیا ہے۔
کبھی کانشی رام کے ساتھ مل کر یوپی میں بی ایس پی کو کھڑا کرنے اور اقتدار میں پہنچانے والے بھروسے مند ساتھیوں میں راج بہادر ، آر کے چودھری ، دینا ناتھ بھاسکر، مسعود احمد، برکھورم ورما ، داددو پرساد ، جنگ بہادر پٹیل ، بابو سنگھ کشواہا ، نسیم الدین صدیقی اور سونے لال پٹیل جیسے بڑے لیڈر پارٹی سے کنارہ اختیار کرچکے ہیں یا باہر کئے جاچکے ہیں۔ سوامی پرساد موریہ، جگل کشور، رام ویر اپادھیائے ، جے ویر سنگھ ، برجیش پاٹھک، رام اچل راج بھر ،اندرجیت سروج، منقاد علی جیسے قدر آور لیڈر بھی بی ایس پی چھوڑ کر دوسری پارٹیوں کو مضبوط کررہے ہیں۔ ان میں سےزیادہ تر ایس پی، بی جے پی اور کچھ کانگریس میں اپنا سیاسی ٹھکانہ تلاش کرچکے ہیں۔ بی ایس پی کے پرانے لیڈروں میں آج مایاوتی کے ساتھ ستیش چندر مشرا،انٹو مشرا، سکھدیو راج بھر جیسے چند لوگ ہی بچے ہیں۔
کچھ عرصے سےبی ایس پی سے نکالے جانے والے یا چھوڑنے والے زیادہ تر لیڈروں کو سائیکل کی سواری ہی زیادہ راس آرہی ہے ۔ مایا اور بی جے پی کی مبینہ جگل بندی سے خفا زیادہ تر مسلم لیڈروں کو ایس پی میں جانا فائدہ مند نظر آرہاہے تو اپنے اپنے علاقوںمیں پکڑرکھنے والے کئی دیگر ذاتیوں کے لیڈر بھی سماج وادی پارٹی میں ہی جا رہے ہیں ۔ اسی سال 16 جنوری کو بی ایس پی سے برطرف سابق ایم ایل اے یوگیش ورما اپنی بیوی سنیتا ورما جو کہ میرٹھ کی چیئرپرسن ہے کہ ساتھ ایس پی میں شامل ہوئے۔ مرزا پور سے سابق ایم ایل اے شری رام بھارتی، راٹھ کے سابق ایم ایل اے انل اہیروار، بی ایس پی سرکار میں وزیر رہ چکے تلک چند اہیروار ، سابق قانون ساز کونسل کے ممبر مہیش آریا، سابق وزیر راجندر کمار ،سابق ایم ایل اے ببو خاں، مظفرنگر سے سابق ایم ایل اے انل جاٹو ، سابق ممبر پارلیمنٹ داؤد احمد ، علی گڑھ سے کول ایم ایل اے ضمیر اللہ ہاتھی سے اتر کر سائیکل پر سوار ہوچکے ہیں۔