نئی دہلی: 4 جنوری
اس بار نئی دہلی سیٹ پر عام آدمی پارٹی کے سپریمو اروند کیجریوال کے لیے چیلنج کافی بڑھ گیا ہے۔ کانگریس نے دہلی کے اپنے سینئر لیڈر سندیپ دکشت کو کیجریوال کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ اب بی جے پی نے بھی پرویش ورما کی شکل میں ایک مضبوط امیدوار کھڑا کیا ہے۔ اگر ہم پچھلی بار کی بات کریں تو دونوں پارٹیوں نے اے اے پی سربراہ کے خلاف مضبوط امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے۔ 2020 میں بی جے پی نے کیجریوال کے خلاف سنیل کمار یادو کو میدان میں اتارا تھا جبکہ کانگریس نے رومیش سبھروال کو ٹکٹ دیا تھا۔ پچھلی بار نئی دہلی سیٹ کے نتائج پر نظر ڈالیں تو کیجریوال نے 46758 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کے سنیل کمار یادو 25061 ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور کانگریس کے رومیش سبھروال 3220 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے۔ پچھلی بار، اروند کیجریوال نے نئی دہلی اسمبلی سیٹ پر ڈالے گئے کل ووٹوں کا 61 فیصد اکیلے حاصل کیا تھا، یعنی کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ لیکن اس بار حالات بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ سنیل کمار یادو یا رومیش سبھروال کے مقابلے پرویش ورما اور سندیپ دکشت آپ کے سربراہ کے لیے مضبوط حریف ثابت ہو سکتے ہیں۔
آتشی بھی چکر ویوہ میں پھنسیں؟
وزیر اعلیٰ آتشی بھی کالکا جی سیٹ پر سخت مقابلے میں پھنس گئی ہیں۔ ایک دن پہلے کانگریس نے وہاں سے الکا لانبا کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اب بی جے پی نے سابق ایم پی رمیش بدھوری کو بھی کالکا جی سے اپنا امیدوار قرار دیا ہے۔ بدھوری ایک بڑا گوجر چہرہ ہے، جبکہ الکا لانبا عام آدمی پارٹی سے ایم ایل اے رہ چکی ہیں اور ایک نوجوان اور دبنگ،تیزطرار خاتون لیڈر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
گزشتہ بار آتشی نے کالکا جی سے 55897 ووٹ حاصل کر کے سیٹ جیتی تھی دوسرے نمبر پر بی جے پی کے دھرم بیر سنگھ رہے جنہیں 44504 ووٹ ملے۔ کانگریس کی شیوانی چوپڑا صرف 4965 ووٹ حاصل کر سکیں اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے دہلی سے اپنے 7 میں سے 6 کے ٹکٹ کاٹ دیے تھے۔ منوج تیواری ان ممبران پارلیمنٹ میں سے واحد تھے جن پر بی جے پی نے بھروسہ کیا۔ گوتم گمبھیر، جو مشرقی دہلی سے ایم پی تھے، نے اعلان کیا تھا کہ وہ سیاست چھوڑ کر کرکٹ پر توجہ دینے کے لیے الیکشن نہیں لڑیں گے۔ گمبھیر کے علاوہ بی جے پی نے ہرش وردھن، میناکشی لیکھی، رمیش بدھوری، پرویش ورما اور ہنس راج ہنس کے ٹکٹ کے ٹکٹ بھی کاٹ دیے تھے۔ اب ورما اور بدھوری کو اسمبلی انتخابات میں میدان میں اتارنے کے بعد اس کی وجہ بھی سامنے آگئی ،لگتا ہے اس مرتبہ بی جے ث سنجیدگی سے الیکشن میں اتررہی ہےاور مقابلہ کے موڈ میں ہے اوکھلہ کا انتظار ہے کہ یہاں کانگریس،بی جے پی کس کو اتارتے ہیں