بھوپال :(ایجنسی)
مدھیہ پردیش کے کھرگون ضلع میں حالیہ تشدد کے پیچھے کئی دردناک کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ ہجومی تشدد کا نشانہ بننے والے بہت سے لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان کو دیکھ کر حملہ آوروں کے عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان ویڈیوز میں ایک مسلم نوجوان مبینہ طور پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتا رہا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی نے بھی اس ویڈیو کو ری ٹویٹ کیا ہے۔ نوجوان کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نہ آتی تو بڑا حادثہ ہو جاتا اور ہم میں سے کوئی بھی نہ بچتا۔
آن لائن جن ستا کی رپورٹ کے مطابق کھرگون ضلع ہیڈکوارٹر سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع، ککڈول کے بیڑی کے پورے گاؤں کی آبادی 1000 کے قریب ہے۔ اس گاؤں میں کل تین مسلم خاندان رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں گاؤں کے عبدالمالک نے بتایا کہ منگل کی رات گاؤں کے 60-70 لوگ زبردستی ہتھیاروں کے ساتھ اس کے گھر میں گھس آئے۔ انہوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے کو کہا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر میں توڑ پھوڑ شروع کردی اور مبینہ طور پر عبدالمالک سے کہا کہ ’’بہن کی عصمت دری کریں گے‘‘۔
اتنا ہی نہیں وہ لوگ ’ ماں کے کپڑے بھی پھاڑ دیے۔ ماں، باپ اور ماما کی پٹائی کر کے زخمی کر دیے۔ عبدالمالک کے سر پھوڑ دئے۔ اس کی بیوی چھ مہینے کی حاملہ ہے ۔ الزام ہے کہ حملہ آوروں نے اس کےپیٹ پر لات مارے۔‘
عبدالمالک نے بتایا کہ انہوں نے فوراً پولیس کوفون کیا اور پولیس کے آنے کی اطلاع اور گاڑی کا سائرن بجنے پر حملہ آور وہاں سے بھاگ نکلے۔ عبدالمالک کے مطابق اس کا پریوار وہاں پر 35 سال سے رہ رہا ہے ۔ اس نے 15 لوگوں کے خلاف نامزد رپورٹ درج کرائی ہے ۔
دوسری جانب اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ ’راجستھان، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک اور گوا کی حکومتیں جلوسوں کے دوران تشدد کو روکنے اور بھیڑ کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’’جہاں بھی جلوس نکالے گئے وہاں فسادات ہوئے۔ آپ فسادیوں کو نہیں روک سکتے لیکن اگر آپ نے انہیں جلوس نکالنے کی اجازت دی ہے تو انہیں روکنا آپ کا کام ہے۔