تحریر:سراج الدین فلاحی
روز اول سے اولاد آدم نے تبادلے کو آسان بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے اور صدیوں تک مختلف اشیاء کو ذریعہ مبادلہ کے طور پر استعمال کرنے کے بعد اب وہ ڈیجیٹل کرنسی تک پہنچا ہے۔ کرنسی ہارڈ منی کو کہتے ہیں جیسے سکے، نوٹ وغیرہ۔ ہارڈ منی کے ساتھ سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اسے پرنٹ پڑتا ہے اور پھر اسے تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ نوٹوں کی چھپائی اور اس کی تقسیم میں خرچ آتا ہے اس لیے اب یہ مانا جا رہا ہے کہ آنے والا وقت ڈیجیٹل کرنسی کا ہو گا۔ ڈیجیٹل کرنسی کے آنے کے بعد کرنسی کو چھاپنا نہیں پڑے گا۔ ڈیجیٹل کرنسی کا مطلب حکومت کا یہ کہنا کہ میں پانچ لاکھ کروڑ روپیوں کو بغیر پرنٹ کیے ڈیجیٹل فام میں لانا چاہتی ہوں۔ ڈیجیٹل کرنسی کو کیش میں نہیں لایا جا سکتا اس کو صرف ڈیجیٹل والیٹ میں ہی رکھا جا سکتا ہے۔ آپ کے Paytm میں موجود روپیے کو ڈیجیٹل کرنسی اس لیے نہیں کہا جاتا کیونکہ Paytm میں موجود روپیہ کو حکومت کیش میں لا چکی ہوتی ہے اور آپ جب چاہیں اسے کیش میں بدل سکتے ہیں جبکہ ڈیجیٹل کرنسی کے ساتھ ایسا نہیں ہے کیونکہ ڈیجیٹل کرنسی کو کسی بھی ہارڈ فام میں نہیں لایا جا سکتا۔
انڈیا میں کرنسی جاری کرنے کا تنہا اختیار صرف حکومت اورRBI کو ہے۔ گذشتہ ماہ مالیاتی سال 2022-23 کا بجٹ پیش کرتے وقت جیسے ہی وزیر مالیات نے کرپٹو سے کمائی ہونے پر 30 فیصد ٹیکس کا اعلان کیا کئی سوالات ابھر کر سامنے آئے کہ کیا حکومت اسے کرنسی مانتی ہے؟ کیا اسے قانونی طور پر تسلیم کر رہی ہے؟ اگر اسے قانونی طور پر تسلیم نہیں کر رہی ہے تو اس پر ٹیکس کا کیا مطلب؟قابل غور بات یہ ہے کہ RBI کرنسی جاری کرتا ہے اور اس کرنسی سے کمائی ہونے پر حکومت ٹیکس لگاتی ہے لیکن کرپٹو کو RBI جاری نہیں کرتا اور حکومت اسے غیر قانونی بھی مانتی ہے تو حکومت ٹیکس کیسے لے سکتی ہے؟ جیسے ہی بجٹ کے بعد وزیر مالیات پارلیمنٹ سے باہر آئیں ان سے سوال کیا گیا کہ جب آپ اسے قانونی طور پر تسلیم نہیں کر رہی ہیں تو اس پر ٹیکس کیسا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے صرف ڈیجیٹل اثاثہ مانتے ہیں اور ظاہر ہے اثاثوں پر ٹیکس لگتا ہے۔ اس طرح الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر بہت سارے سوالات کے ادھورے جوابات دے کر وزیر مالیات نکل گئیں۔ تو گویا یہ ایک ایسا انوکھا اثاثہ ہوا جسے آپ دیکھ نہیں سکتے چھو نہیں سکتے اور نہ ہی اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اس پر ٹیکس کیسے لگائے گی؟ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ حکومت کو کیسے معلوم ہو گا کہ آپ کے پاس کرپٹو کرنسی ہے اور آپ اس سے نفع بھی کما رہے ہیں۔ چونکہ کرپٹو کوئی ہارڈ کرنسی نہیں ہے جسے آپ کیش میں ایک ہاتھ سے ادائیگی کر کے دوسرے ہاتھ سے لے لیں گے۔ آپ جب بھی کرپٹو خریدیں گے تو اپنے بینک یا موبائل فون سے پیسے دے کر خریدیں گے۔ بالفرض آپ نے دس ہزار روپیے کی کرپٹو خریدی اور وہ آپ کے ڈیجیٹل والیٹ میں آ گئی۔ حکومت کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے کہ آپ نے کرپٹو خریدی ہے۔ چند ماہ کے بعد اگر اس کی ویلیو بڑھ کر ایک لاکھ ہو جاتی ہے تو بھی حکومت کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ البتہ جب آپ اسے بیچ کر انڈین روپیہ میں بدلیں گے تب حکومت کو مطلب ہو گا اور آپ کو اس پر ٹیکس دینا ہوگا۔ مثال کے طور پر آپ نے دس لاکھ روپیہ کا ایک فلیٹ خریدا اور اس کی قیمت بڑھ کر ایک کروڑ ہو گئی تو جب تک آپ فلیٹ فروخت نہیں کرتے حکومت کو کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی آپ فلیٹ سیل کرتے ہیں حکومت منافع پر ٹیکس لگا دیتی ہے اسی طرح کرپٹو کا معاملہ بھی ہو گا۔
اب تک مانا جا رہا تھا کہ کرپٹو ایک کرنسی ہے لیکن وزیر مالیات کے مطابق یہ ایک ایسا ڈیجیٹل اثاثہ ہے جس کے لین دین پر 30 فیصد ٹیکس لگے گا۔ جب حکومت کسی شئی پر ٹیکس لگاتی ہے تو اسے ریگولرائز کرنے کا عمل شروع کر دیتی ہے اور مکمل طور پر اس کا ایک روڈمییپ بناتی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اب حکومت جلد اسے قانونی طور پر تسلیم کر لے گی ۔لیکن ایسا کرنا حکومت کے لیے آسان بھی نہیں ہے اور اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ کیونکہ حکومت کو کرپٹو کو کرنسی بنانے کے لیے پہلے RBI ایکٹ میں ترمیم کرنی ہو گی اور ترمیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری لینی ہو گی۔ وزیر مالیات جب پارلیمنٹ میں RBI Amendment Bill لے کر آئیں گی تو یقینا اس پر سیاسی مباحثہ ہو گا اور ان سے بہت سارے سوالات ہوں گےکہ ڈیجیٹل روپیہ کیسا ہو گا؟ اس کے Safeguard کیا ہوں گے؟ اسے ریگولیٹ کیسے کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہو سکتا ہے حزب اختلاف اسے اسٹینڈنگ کمیٹی بھیجنے کی ڈیمانڈ کرئے۔ اگر یہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی چلا گیا تو پھر اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ لہذا جب تک یہ بل پارلیمنٹ میں نہیں آتا کسی کے پاس مکمل علم نہیں ہے کہ اس کا روڈ میپ کیا ہو گا۔ حکومت کو فائدہ یہ ہو گا کہ کرپٹو کرنسی کی شکل میں جتنے بھی لین دین ہوں گے حکومت نہ صرف انہیں آسانی سے ٹریک کر سکے گی بلکہ اس پر ٹیکس بھی لگا سکے گی اور یہ دیکھ سکے گی کہ معیشت میں کیا چل رہا ہے ساتھ ہی حکومت کو کاغذ اور چھپائی کے خرچ سے بھی نجات مل جائے گی۔ البتہ حکومت کے لیے یہ صرف فائدے کا سودا نہیں ہے بلکہ اس میں کئی طرح کے چیلنجزبھی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر کوئی اسے غیر ملکی کرنسی سے بدل کر انڈیا میں لانا چاہےتو حکومت کے پاس اسے روکنے کا کوئی روڈمیپ نہیں ہے۔ مثلا کسی نے دس لاکھ کی کرپٹو خریدی اور وہ ایک کروڑ کی ہو گئی تو وہ اسے آسانی سے کسی ایسے ملک کی کسی فرضی کمپنی میں شفٹ کر سکتا ہے جہاں کرپٹو کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ پھر وہاں کی کرنسی سے انڈیا کے اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگا سکتا ہے۔ گویا روپیہ مختلف ممالک کا چکر لگا کر یہیں لوٹ آئے گا اور حکومت کی نظروں سے پوشیدہ بھی رہے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان کیا کریں؟ کیا کرپٹو میں انویسٹ کریں؟ یا کیا اس میں تجارت کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟ دیکھیں اس وقت دنیا میں کاغذی کرنسی کا چلن ہے۔ کاغذی کرنسی کی اپنی کوئی ویلیو نہیں ہوتی اس کی ویلیو اس وقت ہوتی ہے جب اس کی پشت پر حکومتیں اور اس کے سینٹرل بینک ہوتے ہیں یعنی کسی بھی کرنسی کی ویلیو کی ضمانت اس ملک کی حکومت یا اس کا سینٹرل بینک دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنی کرنسی کی قانونی حیثیت ختم کرتا ہے تو وہ کرنسی محض کاغذ کا ایک ٹکڑا بن کر رہ جاتی ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ کرپٹو کے ساتھ ہے یہ ایک ڈی سینٹرالائزڈ کرنسی ہے۔ اس کرنسی کا اپنا کوئی ٹھوس وجود نہیں ہے۔ یہ اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ ہے نہ ہی یہ ہمارے ملک کی حکومت یا اس کے سینٹرل بینک کے تابع ہے۔ نہ ہی اس کے پیچھے کوئی مارکیٹ ہے جس میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہو، نہ ہی اس کی ویلیو کے گھٹنے اور بڑھنے کی ایسی کوئی بنیاد ہے اور نہ ہی اس کی پشت پر ایسا کوئی منظم اور مربوط ادارہ ہے جس پر بھروسہ ہو اس لیے اس کا استعمال بہت سارے خدشات کو جنم دیتا ہے۔ تصور کیجیے اگر آپ کا پیسہ ڈوب جاتا ہے تو آپ کسی پر دعوی بھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جب تک کوئی حکومت یا اس کا سینٹرل بینک اس کی گارنٹی نہ لے لے یہ کرنسی غرر ہے، دھوکہ ہے اور اس سے دور رہنا بہتر ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ مستقبل کی کرنسی ہے اور جس طرح حکومت اس پر ٹیکس لگانے کی بات کر رہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جلد اسے منظوری دے دے گی۔ اگر حکومت اسے قانونی طور پر تسلیم کر لیتی ہے تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس میں تجارت کرنا شرعا جائز بھی ہو گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)