نئی دہلی :
اقتدار کے گلیاروں میں یہ خبر گرم ہے کہ مرکزی حکومت ’جموں و کشمیر کی طرح مغربی بنگال کو بھی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ جنوبی حصہ مغربی بنگال کہلائے گا۔ موجودہ مغربی بنگال کے شمالی حصہ کے گورکھا علاقے کو ، جیسے سلی گوڑی کاری ڈور اور دراجلنگ کو الگ ریاست بنائی جائے گی اور مالدہ ، مرشد آباد ، جنوبی دیناج پورکو ملا کر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا جائے گا۔
یہ کالم دینک بھاسکر اخبار میں ڈاکٹر بھارت اگروال نے اپنے ’ پاور گیلری‘ میں لکھا ہے۔ اپنے اس کالم میں وہ اقتدارکی گلیاروں سے جڑیں وہ باتیں لکھتے ہیں ، جس پر کانا پھوسی پردے کے پیچھے ہوتی ہے ۔ یہ ایک طرح سے گوسپ کا کالم ہے ۔ مگر گوسپ کے کالم میں بھی مغربی بنگال کے تقسیم کی بات لکھنا کافی اہم ہوجاتاہے ، اس کے باوجود کہ انہوں نے اپنی بات کے آخر میں سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
’آن لائن پورٹل ستیہ ہند‘ کے مطابق ڈاکٹر اگروال کے کالم پر سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے ۔ سینئر صحافی سریندر کشورنے لکھا:’ اگر مسئلہ کشمیر جیسا ہی ہے تو سلوک بھی اسی نوعیت کا ہے !!‘
کشور دینک بھاسکر گروپ میں کام بھی کرچکے ہیں۔ انہوں نے فیس بک پر لکھا: ’خبروں کے اصل ماخذ تک ڈاکٹرصاحب (بھارت اگروال ) کی پہنچ لاجواب ہے۔ میرے دینک بھاسکر کے دنوں سے ڈاکٹر اگروال واقف ہیں۔ وہ پیشہ سے ڈاکٹر ہے۔ ان کی سیاسی صلاحیتوں کو بھی میں ذاتی طور سے جانتا ہوں۔ مانا جاسکتا ہے کہ ان کی خبر صحیح ہوگی۔
انہوں نے پوسٹ میں مزید لکھا ، ویسے بھی اس ملک کے ہاتھوں سے پھسلتے جارہے مغربی بنگال کے لیے محض یہی ایک علاج ہے کہ جو مرکز ی سرکار کرنے جارہی ہے ۔ دیکھنا ہے کہ مرکزی سرکار کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ آئینی حقوق اگرپارلیمنٹ کے پاس ہے ، تو سڑکوں کو لوگوں سے پاٹ دینے کی طاقت ممتا بنرجی کے پاس بھی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ملک بچتا ہے یا ممتا کی گدی؟ کشمیر جیسے مسائل جہاں ہے ، سلوک بھی وہاں کشمیر جیسا ہی تو کرنا پڑے گا! اس گہراتے مسائل کو اگلی نسل کے لیے تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کشمیر کا تجربہ جو تلخ رہا ہے ۔آزادی کے بعد سے ہی دہائیوں تک ’کشمیر ‘ کو بگڑنے دیا گیا تھا۔
سنگھ مانویندر نے کشور کے پوسٹ پر جب تبصرہ کیا کہ بغیر اسمبلی کے قرار داد کے یہ ممکن ہے ۔ دیدی یہ قرار داد کبھی نہیں بھیجیں گی تو کشور نے اس پر جواب دیا ۔ ایک جانکار لیڈر جے پال ریڈی نے 2013 میں کہا تھا کہ کسی ریاست کی تقسیم کے لیے اس ریاستی اسمبلی سے تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کرانے کا کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے۔شاید سپریم کورٹ کا بھی یہی فیصلہ ہے۔
صحافی اوم پرکاش اشک نے تبصرہ کیا ہے:’ دیکھنا ہے کہ مرکزی سرکار کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ آئینی اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے تو سڑکوں کولوگوں سے پاٹ دینے کی طاقت ممتا بنرجی کے پاس بھی ہے۔
31 اکتوبر 2019 کو مرکزی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کو دو مرکزکے زیر انتظام علاقے ،(جموں وکشمیراور لداخ ) میں بانٹ دیا تھا۔ اس سے پہلے پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ منظور کیا گیا تھا۔