اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حماس کی قید میں موجود ہر یرغمالی کی رہائی کے عوض 50 لاکھ امریکی ڈالر اور اغوا کاروں کو کسی تیسرے ملک جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کی پیش کش کی ہے۔ اسرائیلی ذمے داران منگل کی شام سے یہ پیش کش مختلف چینلوں کے ذریعے پھیلانے پر کام کر رہے ہیں تا کہ یرغمالیوں کو قید میں رکھنے والے افراد کو اس حوالے سے ابھارا جا سکے۔ یہ بات اسرائیلی اخبار "یدیعوت احرونوت” کی انگریزی ویب سائٹYnet نے بتائی۔بعض یرغمالیوں کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے "امید فورم” نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مالی پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے۔
مذکورہ اسرائیلی اخبار کے مطابق وساطت کاروں کے ساتھ رابطے جاری ہیں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا حماس کو اس کے مطالبات میں کمی کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے۔ ان مطالبات میں فی الوقت جنگ کا خاتمہ اور غزہ سے اسرائیل کا مکمل انخلا شامل ہے۔ معلوم رہے کہ اس وقت مذاکرات کی میز پر کئی تجاویز موجود ہیں۔ جیسا کہ محدود اولین سمجھوتا (مصر کی تجویز کی طرز پر) یا تدریجی معاہدہ یا ایک جامع سمجھوتا شامل ہے۔ ان تمام تجاویز کے ساتھ بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کی شام یرغمالیوں کی صورت حال کا وسیع جائزہ لیا۔ آئندہ دنوں میں مزید بات چیت ہونے کی توقع ہے۔ نیتن یاہو نے پیر کی شام یرغمالیوں کے خاندان کے افراد سے بھی ملاقات کی۔
یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن جنوری میں اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے قبل اسرائیل حماس سمجھوتے کی تکمیل کے حوالے سے پر عزم ہیں۔ امریکی انتخابات کا نتیجہ مذاکرات کے وساطت کار (مصر اور قطر) اور اسی طرح حماس پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب پیر کی شام اسرائیل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مذاکرات کے حوالے سے نہایت مایوسی پائی جا رہی ہے۔ حماس نے وساطت کاروں کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے سمجھوتے کو مسترد کرتی ہے جس میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیل کا مکمل انخلا شامل نہ ہو۔ ادھر ایک با خبر اسرائیلی ذریعے کا کہنا ہے کہ "حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ اب کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا، نہ چھوٹا ، نہ بڑا اور نہ جزوی … اصل سوال یہ ہے کہ آیا وقت آ چکا ہے کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کو بچایا جائے اور غزہ میں جنگ کا خاتمہ کیا جائ