لکھنؤ : (ایجنسی)
اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ایک انتخابی ریلی میں جناح کا ذکر کرکے سیاست کو گرما دیا ہے۔ اکھلیش کے بیان پر بی جے پی مشتعل ہوگئیہے اور آنے والے کچھ دنوں میں اسے ایک مسئلہ بنا سکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی کئی بار ہندوستان کی سیاست میں جناح کے حوالے سے ہنگامہ برپا ہو چکا ہے۔ محمد علی جناح پاکستان کے بانی تھے اور وہاں انہیں قائداعظم کہا جاتا ہے۔
بھارت کی سیاست میں 2005 میں جناح کو لے کر زبردست گھمسان تب ہوا تھا، جب بی جے پی کے اس وقتکے صدر لال کرشن اڈوانی 2005 میں اپنے پاکستان دورے پر محمد علی جناح کی مزار پر گئے تھے۔ انہوں نے جناح کو سیکولر شخص قرار دیا تھا۔
اڈوانی جب ہندوستان واپس لوٹے تو وہ اپنے بیان کو لے کروہ بری طرح گھر گئے تھے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس اڈوانی سے اس قدر ناراض ہوئے تھے کہ انہیں پارٹی صدر کاعہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
بی جے پی کے بڑے لیڈروں میں شمار رہے اور مرکزی سرکار میں وزیر خزانہ اور خارجہ رہ چکے جسونت سنگھ نے بھی جناح کی جم کر تعریف کی تھی۔ انہوں نے تو جناح پر کتاب لکھی تھی جس کا نام ’ جناح – بھارت ، تقسیم اور آزادی‘ تھا۔ جسونت سنگھ نے اس میں کہا تھا کہ بھارت میں جناح کو نہ صرف غلط سمجھا گیا تھا بلکہ انہیں ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔ انہوں نے جناح کو ایک عظیم شخصیت بتایا تھا۔
2009 میں آر ایس ایس کے سابق سربراہ کے ایس سدرشن نے بھی جناح کی تعریف کی تھی۔ سدرشن نے کہا تھا کہ جناح قوم کے لیے وقف تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’جناح پہلے قوم پرست تھے لیکن بعد میں ناراض ہوگئے اور انگریزوں نے ان کے نام میں منقسم قومیت کے بیچ بو دیے۔‘‘
سدرشن نے کہا تھا، ’’جناح کی زندگی کے کئی پہلو تھے، اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک وقت وہ لوک مانیہ تلک کے ساتھ تھے اور غیر منقسم ہندوستان کے لیے پوری طرح وقف تھے۔‘‘
اے ایم یو میں جناح کی تصویر کو لے کر سال 2018 میں زبردست تنازع ہوچکا ہے ۔ اس تصویر کو لگائے جانے کا معاملہ مقامی بی جے پی رکن پارلیمنٹ ستیش کمار گوتم نے اٹھایا تھا۔ یہ تصویر 1938 میں اے ایم یو میں لگائی گئی تھی۔ جناح کے ساتھ ہی مہاتماگاندھی ، بھیم راؤ امبیڈکر سمیت کئی کئی لیڈروں کی تصاویر اے ایم یو کے اسٹوڈنٹس ہال میں لگی ہیں، لیکن بی جے پی کو 2018 میں یعنی ملک کی آزادی کے 70 سال بعد آیا کہ جناح کی تصویر اے ایم یو میں لگی ہے ۔
اس کے بعد بہار اسمبلی انتخابات کے دوران مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے جناح کو درمیان میں لے آئے تھے۔ گری راج سنگھ نےتب کانگریس پر حملہ کیاتھا اور کہا تھا اس نے جالے اسمبلی سیٹ سے ایسے شخص کو ٹکٹ دیا ہے جو جناح کی حامی ہے۔ کانگریس نے یہاں سے مشکور عثمانی کو ٹکٹ دیا تھا۔
اگر آپ آزادی سے پہلے کے دور میں جائیں تو ہندو مہاسبھا کے لیڈر شیام پرساد مکھرجی بنگال میں 1941 میں بنی فضل الحق کی سرکار میں وزیر خزانہ بنے تھے ۔ اس کے علاوہ ابھیجیت بھارت میں سندھ اور نارتھ -ویسٹ فرنٹیئر صوبے یا خیبر پختوانخواہ میں بھی ہندو مہا سبھا نے مسلم لیگ کےساتھ مل کر سرکار بنائی تھی ۔
حالانکہ اکھلیش یادونے جناح کا ذکر مہاتماگاندھی سے لے کر پٹیل کے ساتھ یہ کرکے کیا کہ یہ لوگ ایک ہی جگہ سے پڑھ کر آئے تھے۔ بیرسٹر بنے اور ملک کی آزادی کے لیے جد وجہد کی، لیکن جناح کا نام اکھلیش کے منھ سے سنتے ہی بی جے پی میں کرنٹ دوڑ گیا جبکہ اس کے بڑے بڑے لیڈر جناح کی تعریف کرچکے ہیں اور اس پر وہ منھ نہیں کھولتی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب بی جے پی، ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس کے لوگ جناح کی شان میں قصیدے گاتے ہیںتو کئی پریشانی نہیں ہے اورکوئی دوسری پارٹی کا لیڈر کسی ضمن میں جناح کا ذکر بھر کردے تو اس پر ہنگامہ کھڑا کردیا جائے، ایسا صرف سیاسی پولرائزیشن کی نیت سے کیا جاتا ہے ۔