خراج عقیدت:ابو اشعر فہیم
مولانا مختار احمد ندوی ایک مشن اور مشین کا نام تھا ،ایک آدمی اور آدمیت کا نام تھا ،کام ان کا نام تھا ،نام ان کا کام نہ تھا ،تعلیم ان کا اوڑھونا تھا اور تربیت ان کا بچھونا ،دین اور دنیا کی آمیزش ہی بلکہ دین ہی ان کی دنیا تھی ،وہ کمال کے آدمی تھے وہ حسن کمال جیسے آدمی سے بغل گیر ہوئے اور دین کو ان کے بغل گیر کردیا ، وہ حساب کتاب کے آدمی تھے بلکہ اصلا کتاب کے آدمی تھے،لا تعداد تو نہیں بے شمار کتابیں انہوں نے طبع کیں اور علمی دنیا کو سیراب کیا ،انہوں نے شراب علم پلائی اور ایسا پلائی کہ لوگ مدہوش ہوگئے انہوں نے تصنیف و تالف کا ایک جہان آباد کیا اور اس کے شاہجہاں قرار پایے انہوں نے تخلیفات و تالیفات کے ساتھ ساتھ اسلم و اکرم اور ارشد مختار جیسا خمیرہ آبریشم حکیم ارشد والا ہی صرف قوم کو نہ دیا بلکہ پورا طبیہ کالج ہی مالیگاوں میں آباد کیا وہ علم کے منصور تھے انہوں نے منصورہ آباد کیا ،وہ بڑے انسان تھے ،اچھے کے بھی کام آئے اور اس سے زیادہ برے کے ،برائی کو ختم کرنے میں بھلائی کو پھیلانے میں وہ بھنڈی بازار سے لیکر بھیلائی تک گئے ،وہ اچھے انسان تھے ،انسانیت کے لیے جیے اور ایک اچھے انسان بن کر بلکہ اپنی قوم کو بہت سارے اچھے انسان دیکر وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ،
اللہ مغفرت فرمائے کہ عجیب خود مختار مرد و فرد تھے ،










