محمد اسعد فلاحی
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی جانب سے آج(بتاریخ 20جون 2021) معروف عالم دین مولانا سید جلال الدین عمری کو ایک آن لائن خصوصی تقریب میں چودھویں شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے سرفراز کیاگیا۔ ایوارڈ میں سپاس نامہ، ایک لاکھ روپے کا چیک اور مومنٹو پیش کیاگیا۔ یہ ایوارڈ مولانا عمری کی دعوتی میدان میں نمایاں اور قابلِ قدر خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔ مولانا سید جلال الدین عمری کا شمار بر صغیر کے ممتاز علماء میں ہوتا ہے۔ موصوف کی شخصیت علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ اسلامیات کے مختلف گوشوں: نظام ِ اسلامی، عقائد، قرآنیات و علوم ِ سیرت، انسانی حقوق،عصری مسائل اور اسلامی معاشرت پر مولانا عمری کی چار(4) درجن سے زاید تصانیف ہیں۔ آپ ہندوستان کی تحریک ِ اسلامی کے چوٹی کے رہ نمائوں میں سے ہیں۔خاص طور سے اسلام کی دعوت کے موضوع پر آپ نے وقیع علمی کام کیا ہے۔ اس موضوع پر مولانا کی پانچ کتابیں: معروف و منکر، اسلام کی دعوت، سبیل ِ رب: دعوت الیٰ اللہ کا راستہ، اسلام۔ ایک دین ِ دعوت، دعوت و تربیت۔ اسلام کا نقطۂ نظر اور ہندوستان میں اسلام کی دعوت خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی بعض دیگر تصانیف اور خطابات میں بھی اس کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔
اس وقت مولانا عمری جماعت اسلامی ہند کی قائم کردہ شریعہ کونسل کے چیرمین ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی سپریم کونسل کے صدر، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ اورسراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے مینیجنگ ڈائرکٹر ہیں۔ مولانا بین الاقوامی رفاہی تنظیم ’الہیئۃ الخیریۃ العالمیۃ‘ کویت کے رکن بھی رہے ہیں۔ 1991ء سے 2007ء تک جماعت اسلامی ہندکے نائب امیر، اس کے بعد اپریل 2019 تک اس کے امیر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملی و تحریکی اور علمی حلقوں میں مختلف ذمہ داریوں پر فایز رہ چکے ہیں۔
آئی او ایس کے چیرمین ڈاکٹر محمد منظورعالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا سید جلال الدین عمری کی ان وسیع تر دعوتی، اصلاحی، علمی اور تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہویے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز بڑے فخر کے ساتھ مولانا کی خدمت میں چودھواں شاہ ولی اللہ ایوارڈ پیش کر رہا ہے۔ اس آرزو کے ساتھ کہ خالق کاینات آپ کا سایہ دراز فرمایے اور آپ امت مسلمہ کی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہیں۔
اس خصوصی پروگرام میں مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنے خطاب میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، جس کی توفیق سے انھیں دعوت دین کی خدمت کا موقع ملا اور ساتھ ہی آئی او ایس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منظور عالم اور اس کے ذمہ داروں کا شکریہ ادا کرتے ہویے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز کی بڑی خدمات ہیں۔ یہ ایک پلیٹ فارم ہے، جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو جمع کیااور انھیں اظہار خیال کے مواقع فراہم کیے تاکہ مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہو۔
مولانا نے مزید فرمایا کہ دعوت ایک اہم دینی فریضہ ہے اسے انجام دینا ہوگا۔ اس امت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لوگ اس معاملے میں کوتاہی نہ برتیں۔ دعوت کا یہ عمل بہت طویل عمل ہے۔ ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی جو مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کئی ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے اس میں کون لوگ اور کس طبقے کے لوگ قبول کریں گے اس کا فیصلہ پہلے سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہیں اس کا استقبال ہو اور کہیں اس کی مخالفت ہو۔ کسی خاص حلقے کو دیکھ کر ہم کو فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اور اس پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے، دنیا اسے قبول کرے یا نہ کرے۔ اس ملک کی خیر خواہی بھی ہے اور دنیا والوں کی خیر خواہی ہے۔
مشہور صحافی سہیل انجم نے خوب صورت اندازمیں مولانا سید جلال الدین عمری صاحب حفظہ اللہ کا قلمی خاکہ پیش کیا۔ اس کے بعد ملک کی ذی وقار شخصیات : مولانا سید رابع حسنی ندوی، پروفیسر اختر الواسع، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،جناب سید سعادت اللہ حسینی اور پروفیسر محمد اشتیاق نے مختصراً اظہارِ خیال کیا۔نظامت کے فرائض مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی صاحب انجام دیے۔