مندر/مسجد کو لے کر کی جانے والی سیاست کو تقریبا تمام ہی سمجھ دار لوگ اچھی طرح سمجھتے رہے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ بھارت کی پوری تاریخ اور قدیم عہد سے جاری روایات کے خلاف سیاسی اقتدار اور دھرم ستا (مذہبی اقتدار) پر حاوی ہوتا ہوا بالکل واضح طور سے نظر آ رہا ہے، یہ مختلف صورت حال ہے، جس میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، اس کی طرف اکثریتی سماج میں تسلیم شدہ چار مٹھوں کے مٹھادھیش، شنکر آچاریوں نے بہت واضح الفاظ میں اشارے کیے ہیں، جب کہ بھارت کے سیکولر امیج و آئین کے تحفظ اور سیکولر طرز و نظام حکمرانی کے خلاف موجودہ حالات کے تناظر میں مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی، دونوں جمیعتہ علماء ہند کی متفقہ طور سے منظور شدہ تجویز اور ڈاکٹر محمد منظور عالم اوردیگر ہندو مسلم رہ نماؤں نے بھی ملک میں مخصوص طرح کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے، اس قسم کے معاملے کے تمام پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ دیتے ہوئے ملک کی تمام کمیونٹیز خصوصا ہندو مسلم کے قابل ذکر اور نمائندہ اشخاص کو نتیجہ خیز چرچا کر کے کسی صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے، بی جے پی اور سنگھ والے برہمن وادی سماج کی ہندوتو کی جن روایات و تہذیب کے حوالے سے خود کے برتر و ممتاز ہونے کی باتیں کرتے ہیں ان کے تعلق سے معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے جتنا کہ بتایا جاتا ہے، شنکر آچاریوں کی طرف سے، وزیر اعظم کے ذریعے رام مندر کے پران پرتشٹھا کرانے میں کئی قسم کے پیچ اور بہ قول ڈاکٹر امبیڈکر، رڈلس(الجھنیں)ہیں، رام نومی کے بجائے 22/جنوری کو پران پرتشٹھا تقریب منعقد کرانے میں سیاسی مقاصد کے کئی راز پوشیدہ ہیں، وزیر اعظم کے ذریعے پران پرتشٹھا کے معانی و نتائج کو تمام شنکر آچاریہ اچھی طرح سمجھتے ہیں، پروہت طبقے کے بجائے اس کے باہر کے کسی شخص کی طرف سے مورتی کی تنصیب اور پران پرتشٹھا انجام دینے سے ورن سسٹم کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے، دوسرے یہ کہ سیاست پر مرتب ہونے اثرات سے سیاسی پارٹیوں کی پوزیشن پر بھی خاصا فرق پڑے گا۔ اس کے پیش نظر مذہبی و سیاسی دونوں طرح کے لوگوں کے سامنے دھرم سنکٹ ہے، بڑی ہوشیاری سے برخلاف عمل کو رام، ہندو دھرم، سنسکرتی مخالف قرار دے کر سیاسی کامیابی، ناکامی کے حساب سے جوڑ دیا گیا ہے، لیکن اس دھرم سنکٹ اور چکرویوہ سے مذہبی و سیاسی دونوں کو نکلنے کی تدبیر تو کرنی ہی پڑے گی اور یہ سچ ہے کہ دھرم گروؤں اور کمیونسٹ، کانگریس سمیت دیگر غیر بی جے پی پارٹیوں نے اپنی حد تک کوششیں کی بھی ہیں، حالاں کہ ان میں ایسے عناصر کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے جو ہندوتو کے لیے خاصا نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ اپنی پارٹیوں کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اپنا وزن ہندوتو وادیوں کے پلڑے میں ڈالتے نظر آتے ہیں، اس کا نمونہ پروفیسر چندر شیکھر کا مندر کے متعلق دیے بیان پر تبصرہ و تنقید ہے، اس سلسلے میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر سوامی پرساد موریہ کا یہ بیان بھی قابل توجہ ہے کہ مرکزی حکومت بابا صاحب کے خوابوں کے خلاف کام کر رہی ہے، سرکار رام مندر کے ذریعے لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کا کام کر رہی ہے، بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں رام مندر کی تعمیر کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بی جے پی، سنگھ والے اپنے مقاصد کے تحت اصل مسائل سے توجہ ہٹانے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں، ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ پران پرتشٹھا تقریب میں شرکت کا مطلب صاف ہے، رام مندر کے سیاسی کھیل کا حصہ بننا اور بی جے پی اور سنگھ کے کاز کو تقویت دینا، کمیونسٹ پارٹی کے بعد، ابتدا تھوڑے تذبذب اورشش و پنج سے گزر کر کانگریس نے نہرو کی سومنات مندر کی تعمیر میں عدم شرکت کی پالیسی اور چاروں مٹھوں کے شنکر آچاریوں کے موقف سے رہنمائی لے کر پران پرتشٹھا تقریب میں شامل نہ ہونے کا مشکل ترین درست فیصلہ کیا، اس کا براہ راست مسلم ووٹ بینک یا مسلم نوازی سے کوئی تعلق نہیں ہے، جیسا کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور ان کے کاز کو آگے بڑھانے والے کچھ اخبارات اور ذرائع ابلاغ باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں، اس صورت حال کا مقابلہ کرتے ہوئے کانگریس سمیت انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ ملک کے عوام کو سمجھائیں اور باور کرائیں کہ بی جے پی، سنگھ وغیرہ کے سیاسی مقاصد اور پالیسیوں اور دھرم کا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کی کوششوں کی مخالفت، ہندو دھرم، سنسکرتی اور رام کی مخالفت نہیں ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی، بھارت کے ہم معنی نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو چاروں مٹھوں کے شنکر آچاریوں اور دیگر دھرم گروؤں کی طرف سے پران پرتشٹھا تقریب میں عدم شرکت کا اعلان نہ کیا جاتا، کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کی طرف سے پران پرتشٹھا تقریب میں شریک نہ ہونے کی وجوہ سامنے آ چکی ہیں، کچھ عناصر رام اور مندر کے معاملے میں گاندھی جی کو نہرو سے الگ کر کے ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں،
گاندھی جی نے واضح طور سے کھا ہے کہ میرے رام کا اجودھیا کے رام چندر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ان کی وزارت اطلاعات و نشریات بھارت سرکار طرف سے شائع 98جلدوں پر مشتمل کلیات میں رام کے تعلق سے خاصا مواد ہے، گاندھی جی مشترک آبادی والے جمہوری نظام میں یک طرفہ طور سے مذہبی معاملات میں کسی ایک کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے قطعی خلاف تھے اسی پالیسی پر نہرو بھی گامزن تھے اور اپنے موقف کو لے کر پوری طرح صاف شفاف تھے، انھوں نے پارلیمنٹ میں سومنات مندر کی تعمیر کی تقریب میں شرکت کے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ سرکار کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، 13/مارچ 1951 کو صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کے نام لکھے خط میں لکھا تھا ” اگر آپ کو لگتا ہے کہ دعوت نامہ نامنظور کرنا ٹھیک نہیں ہو گا تو میں اپنی بات پر اور زیادہ زور نہیں دوں گا، سومنات مندر یاترا ایک خالص سیاسی اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے۔
اس کا واضح منشاء و مراد سومنات مندر پروگرام میں عدم شرکت تھا، اسے کانگریس صدر کھڑگے نے سمجھا اور پارٹی کے لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب رہے ہیں، وہ پران پرتشٹھا تقریب میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کے سلسلے میں خاصے پر اعتماد نظر آتے ہیں، وہ کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ اجودھیا میں پران پرتشٹھا تقریب وزیر اعظم اور آر ایس ایس وغیرہ کی ہے کہ انہوں نے رام مندر کو طویل عرصے سے سیاسی پروجیکٹ بنائے رکھا، اس تقریب کا مقصد بھی بی جے پی کے لیے سیاسی فائدے کا حصول ہے، اس واضح موقف سے حوصلہ پا کر دیگر لوگ بھی پران پرتشٹھا پروگرام کو سیاسی تماشا اور عقیدے سے کھلواڑ قرار دینے کی جرات کر رہے ہیں، اس کے ایسے نتائج برآمد ہوں گے،جن سے آنے والے دنوں میں بھارت اور اس کے مختلف سماجوں کا تصور اور تصویر بدل جائے گی، شنکر آچاریوں کے تبصرے کے کئی معانی و مقاصد ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مسلمہ مٹھوں کی پوزیشن کو نظرانداز کر کے اجودھیا میں رام مندر کے نام پر ایک الگ طرح کا مذہبی بیانیہ اور واحد مرکز و مرجع تیار کر کے سماج کی توجہ مختلف سمتوں میں لے جانے کی نقصان دہ کوشش کی جا رہی ہے، یہ صورت حال،مذہبی مراکز اور سیاسی پارٹیوں کی راہ میں آنے والے دنوں میں مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرے گی لہذا اس کا تدارک و تلافی کی راہ نکالنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔اگر یہ نہیں کیاجائے گا تو موجودہ حالات اور 2024 کے عام انتخابات میں کسی بڑی اور بہتر تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔
[email protected]