نئی دہلی :(ایجنسی )
یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم (USCIRF) کی سالانہ رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک بار پھر بھارت کے حوالے سے مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ہندوستان کو فی الحال خصوصی تشویش والے ملک کے زمرے میں رکھا جائے۔ اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتی برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور ہندو راشٹرا بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
یو اے پی اے – بغاوت کے قانون کا غلط استعمال
آج تک کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ آوازیں جو یا تو حکومت کے خلاف تھیں یا اقلیتی برادریوں کی طرف سے اٹھائی گئی آوازیں گزشتہ سال بھارت نے سب سے زیادہ دبائی تھیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2021 میں حکومت ہند کے ذریعہ احتجاج کی آوازوں کو دبادیا گیا ہے ، جنہوں نے اقلیتی سماج کی آواز اٹھائی یا اس کی وکالت کی ، ان پر یو اے پی اے اور غداری کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ایسا پایا گیا ہے کہ یو پی اے پی اور غداری قانون کے ذریعہ ڈر کا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی اور ان لوگوں کو خاموش کیاگیا جو سرکار کے خلاف بولتے ہیں ۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں بھیما کوریگاؤں تشدد کے ملزم اسٹین سوامی کا بھی ذکر کیا، جن کی موت گزشتہ سال 84 سال کی عمر میں ہوگئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 84 سالہ اسٹین سوامی، جنہوں نے آدیواسی اور دلت برادری کی آواز کو طویل عرصے تک بلند کیا، ان پر یو اے پی اے کے ساتھ غیر منصفانہ پابندی عائد کی گئی۔ جولائی 2021 میں زیر حراست انتقال کر گئے۔
تریپورہ تشدد اور صحافیوں پر کارروائی
رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ اقلیتی برادری کے خلاف تشدد کا معاملہ اٹھانے والے صحافیوں، سماجی کارکنوں کو بھارتی حکومت نے نشانہ بنایا۔ اس فہرست میں یو ایس سی آئی آر ایف نے انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کا بھی تذکرہ کیا ہے جنہیں این آئی اے نے دہشت گردی کی فنڈنگ کیس میں گرفتار کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ تریپورہ میں مساجد پر حملوں کے بارے میں ٹویٹ کرنے والے صحافیوں کو یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی۔
تبدیلی مذہب پر بنائے گئے قانون پر اعتراض
ان سب کے علاوہ رپورٹ کے ایک حصے میں ہندوستان میں جاری ’تبدیلی مذہب‘ کے بارے میں بھی کھل کر بات کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تبدیلی مذہب کا قانون غیر ہندوؤں کے خلاف لاگو کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتی برادریوں جیسے مسلمانوں، عیسائیوں کے خلاف تشدد دیکھا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین کا استعمال صرف انٹر کاسٹ شادیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ حالیہ دنوں میں کئی ریاستوں میں بین کاسٹ شادیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
تبدیلی کا ہی ذکر کرتے ہوئے یو ایس سی آئی آر ایف نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا نام بھی لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال جون میں سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے ان لوگوں کے خلاف این ایس اے لگانے کی بات کی تھی جو تبدیلی مذہب کے معاملے میں قصوروار پائے جائیں گے۔
سی اے اے قانون کو امتیازی بتایا
یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں حکومت ہند کی طرف سے لائے گئے CAA قانون کی بھی کھل کر مخالفت کی ہے۔ این آر سی کے عمل پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ اسے امتیازی قرار دیتے ہوئے لکھا گیا کہ آسام میں این آر سی کے عمل کی وجہ سے 19 لاکھ لوگ فہرست سے باہر رہ گئے۔ تقریباً سات لاکھ مسلمان اپنی شہریت کھونے کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
کورونا کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک
اب معاملہ صرف تبدیلی مذہب یا اقلیتوں پر حملوں تک محدود نہیں تھا۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کورونا کے دور میں اقلیتی برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ آکسفیم کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت میں 2021 میں 33 فیصد مسلمان ایسے تھے کہ انہیں اسپتالوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ دلت اور قبائلی برادریوں کے لوگ بھی امتیازی سلوک محسوس کرتے تھے۔
کسان تحریک کاذکر، دہشت گردی کنکشن پر تنازع
یو ایس سی آئی آر ایف نے بھی اپنی رپورٹ میں کسانوں کی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بڑا الزام لگایا ہے۔ یہ کہا گیا کہ ملک گیر تحریک میں شامل سکھوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا گیا۔ اب ان تمام الزامات کی بنیاد پر یو ایس سی آئی آر ایف کی طرف سے تجویز دی گئی ہے کہ ہندوستان کو خصوصی تشویش والے ملک کے زمرے میں رکھا جائے۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ جن لوگوں نے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی جائے، ان کی جائیداد ضبط کرنے جیسے اقدامات بھی کیے جائیں۔
ویسے یو ایس سی آئی آر ایف کی اس رپورٹ پر حکومت ہند کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن پچھلی بار بھی حکومت ہند نے ایسی رپورٹ کو تعصب پر مبنی بتایا تھا۔ پھر اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ غیر ملکی اداروں کو ہندوستان کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔