سرفراز بزمی
وصال صبر طلب، ہجر بے قرارحضور
گراں بہت ہے مگرکربانتظارحضور
حضور! اب تومجھےاذن باریابی ہو
دعا میںسوکھ گئی چشم اشکبار حضور
زمیں پہ بیت مقدس میں انبیاء کے امام
فلک پہ تاج شفاعت کےتاجدارحضور
وجودآپ کاہردور کے لئے رحمت
’’پیام آپ کا پیغام نو بہارحضور ‘‘
فضائے وادی طائف نظر میں گھوم گئی
جہاں میں اورکہاں ایسا بردبار حضور
نظام کہاں آپ کے نظام کے بعد
جہاں نے دیکھ لیا سب کوباربار حضور
جو خاکدان میں پھیکی گئیں ہیںنو مولود
دہائی آپ کی دیتی ہیں بار بارحضور
میں کوئے نعت کااک اجنبی مسافر ہوں
تھکا نہ دے کہیں منزل کاانتظار حضور
تبھی تو مرغ حرم کی اذاں میں سوز نہیں
کہ لے پہ بار ہے مضراب مستعارحضور
دیار نیل سے کعبے کے آستانے تک
سجی ہوئیں ہیں ہمارے سروں کو دار حضور
حرم کا پیر بجھاتاہے خودحرم کے چراغ
ہوئی ہے چادرناموس تار تارحضور
جنوں کی بزم سے بزمی کو واسطہ ہی نہیں
اسی لئے توبھٹکتا پھرے ہے خوار حضور
سوائی مادھوپور ،راجستھان