لکھنؤ:(خاص خبر)
اتراکھنڈ اور یوپی سے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے مرتد ہونے یا بنانے کی خبریں گاہے بگاہے آتی رہتی ہیں -مگر اب ایک نیا چیلنج سامنے آیا جس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا اور یہ نہ صرف مسلم سماج کے لیے تشویش کی بات ہے بلکہ اس سے مسلم – عیسائی تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے .
میڈیا رپورٹ کے مطابق عیسائی مشنری معاشی طور پر کمزور مسلم خاندانوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ان پریواروں کا پیسے، بچوں کی تعلیم، علاج اور نوکریوں کے نام پر دھرم تبدیل کیا جا رہا ہے۔ مشنریوں کا مشن مسلم اودھ کے علاقے شراوستی سے شروع ہوا اور بہرائچ، سیتا پور، رائے بریلی، امیٹھی سے ہوتا ہوا امبیڈکر نگر اور سلطان پور پہنچا۔ یہ نیٹ ورک فتح پور، مہاراج گنج، بستی تک پھیلا ہوا ہے۔
فروری میں سیتا پور اور رائے بریلی سے پکڑے گئے عیسائی مشنری ارکان سے پوچھ گچھ کے بعد مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی سیکورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ میں چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس کے مطابق ایودھیا سے ملحقہ بستی منڈل کے سرحدی علاقوں کے کچھ مسلم خاندانوں نے عبادت کا طریقہ بدل دیا ہے۔ اب وہ نماز نہیں پڑھتے جامعہ کو بھی مسجد نہیں جاتے۔ مسجد جانا بہت کم کر دیا ہے۔ ان کے بچے مدارس کے بجائے لکھنؤ اور بارہ بنکی کے نامور کانونٹ اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ خاندان کی خواتین ورلڈ ویژن تنظیم میں شامل ہو کر خود روزگار کی طرف توجہ دے رہی ہیں۔ ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی ہے۔یہ وہ کام ہیں جن کی طرف مسلم اداروں نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی –
**مذہب تبدیل کیا نام نہیں بدلا۔
امر اجالا کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئی بی کے سابق افسر ستیش سنگھ کا کہنا ہے کہ مسلم خاندانوں کے مذہب تبدیل کرنے کا پہلا معاملہ سال 2020 میں پیلی بھیت میں سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد نیپال سے متصل گورکھپور ڈویژن کے مہاراج گنج اور پھر بستی ڈویژن کے ضلع سدھارتھ نگر میں پانچ مسلم خاندانوں نے عیسائیت قبول کی۔ لیکن، ان خاندانوں کے افراد نے اپنے نام نہیں بدلے۔