تحریر: ڈاکٹر ادت راج
نئی سوچ کی بنیاد 2014 سے پڑی اور اب تک اس نے ایک منزل حاصل کرچکی ہے۔ چند سالوں سے جھوٹ بولنا اب کوئی تکلیف دہ چیز نہیں رہ گئی۔ جب ملک کے بڑے ذمہ دار لوگ جھوٹ بولتے ہیں تو عام لوگ ان سے سیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن بھیڑ کی آواز انہیں خاموش کر دیتی ہے۔ تحقیق ہونی چاہیے کہ اس جھوٹ کا کتنا اثر ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ کورونا سے مرے اور ہم نے ندی میں لاشیں تیرتی دیکھیں۔ سماج کا ایک طبقہ اس سے متاثر نہیں ہوا اور اپنے لیڈر کے جھوٹ کو سنتے سنتے اس کا دیکھنے کا نظریہ بدل چکا ہے۔
وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ لاکھوں لوگ مر گئے اور حکومت نے علاج کی پیشگی تیاری نہیں کی۔ نفسیات کا ایک باب پڑھایا جاتا ہے کہ جو شخص مسلسل جھوٹ بولے تو وہ ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ جھوٹ سچ نظر آنے لگتا ہے، اس وقت بھکتوں کا یہی حال ہے۔
حکومت 20 سے 25 دن تک غائب رہی اور لوگوں نے اپنی سطح پر اس وبا کا مقابلہ کیا۔ وہ خوفناک منظر سب نے دیکھا لیکن دوسری طرف سے آوازیں آتی رہیں کہ حکومت اس صورتحال سے پریشان ہے اور بہت کوششیں کر رہی ہے۔ یہ جھوٹ بار بار بولا گیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ ایسے ہولناک منظر کو بھول گئے۔
آج تقریباً 3.5 کروڑ طلبہ ایک عجیب وغریب صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے وہ مقابلے جاتی امتحانات میں نہیں بیٹھ سکے یا ڈیجیٹل سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ تیاری نہیں کر سکے، عمر کے پیرامیٹر اور قابلیت میں وہ دو سال کھو چکے ہیں۔ یہ امیدوار چاہتے ہیں کہ انہیں مزید دو مواقع دیئے جائیں۔ ان مسائل کو لے کر وہ دہلی کے جنتر منتر، لکھنؤ اور نہ جانے کہاں کہاں احتجاج کر رہے ہیں۔
راہل اور پرینکا سے سوال کرنا چاہتے ہیں طلبہ
یہ طلباء اپنے سوالات بار بار راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے سامنے کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اسے جتنا ممکن ہو سکا اٹھایا۔ انہوں نے اپوزیشن کے کسی ایسے رہنما کو نہیں چھوڑا جس سے انہوں نے التجا نہ کی ہو۔ وہ ہر ایک سے اس معاملے کو اٹھانے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود جب نریندر مودی کی بات آتی ہے تو ایک طبقہ حمایت میںکھڑا ہوجاتا ہے۔
اس قسم کی ذہنیت کی تخلیق 2014 کے بعد ہی شروع ہوئی ۔ پہلے ایسا نہیں تھا، عوام بھی ایمرجنسی کے نفاذ کو نہیں بھولے تھے اور انہوں نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت جھوٹ اور منافقت کا سہارا نہیں لیا گیا۔
موجودہ صورت حال ایسی بن چکی ہے کہ خواہ کتنی ہی بڑی کرپشن ہو، غیر اخلاقی کام ہو یا جھوٹ اور ناانصافی بہت سے لوگوں کی نظر میں غلط نہیں۔ سیدھا جواب یہ ہے کہ ماضی میں بھی کرپشن تھی، کیا پہلے آمریت نہیں تھی؟ یہی ذہنیت بے روزگاری اور مہنگائی پر بھی بن چکی ہے۔
کچھ خیالی باتیں پھیلائی گئی ہیں جن کی عام آدمی تصدیق نہیں کر سکتا اور وہ وہی مانتا ہے۔ بار بار یہ کہنا کہ پہلے ملک کا نام بیرون ملک نہیں لیا جاتا تھا، بھارت وشو گرو بننے کے قریب ہے۔ دوسرے ہم سے سیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی ثقافت اور روحانیت کا پھیلاؤ اب ہو رہا ہے۔ بھارت کو دوبارہ بنانے کا وقت آگیا ہے۔ ہمارے سابق وزرائے اعظم کو بیرون ملک میں کوئی جانتے تک نہیں تھے ، حقیقی آزادی 2014 کے بعد شروع ہوئی اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اس جھوٹ پر پاؤں رکھنے کے لیے ایک اور بڑا جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ یہ سب کرنے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ مطلب یہ کہ بے روزگاری اور مہنگائی کوئی بڑی بات نہیں اور اسے ملک کی خاطر برداشت کرنا چاہیے۔ جو بھی ان کے خلاف بولے یا لکھے اسے غدار قرار دیا جا رہا ہے۔
جھوٹ ایک نظریہ نہیں ہوسکتا لیکن یہ ایک سوچ ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ ایک نئے کلچر نے جنم لیا ہے۔ اتنے کم وقت میں ملک کی ایک بڑی آبادی کی ذہنیت کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
کئی محاذوں پر مسلسل کام کرنے کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ زیادہ تر ٹی وی چینلز مسلسل جھوٹ اور نفرت پھیلاتے ہیں، اس میں وہاٹس ایپ نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع جیسے فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ بھی اس میں شامل تھے۔ اخبار والے کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔
رسم پرستی اور تقدیر پرستی وغیرہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس میدان میں تصدیق یا صداقت کی ضرورت نہیں، وید کا جوہر کیا ہے؟ دنیا ایک سراب ہے اور حقیقت انسانی سوچ اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ جو کچھ بھی کہا جائے جیسا ہے قبول کر لیا جائے، سائنسی سوچ یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ آر ایس ایس ایک سماجی اور ثقافتی تنظیم ہے اور اس کی صلاحیت لامحدود ہے۔ اس تنظیم کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے کارکنان بہت محنتی ہیں، جو کسی بھی پیغام کو کم وقت میں نچلی سطح تک لے جا سکتے ہیں۔ ان میں حکمران کی باتوں کو عوام تک پہنچانے کی توانائی ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تجربہ گاہ کی پالیسی کو حکومت اور دیگر میکنزم نے عوام کے ذہنوں میں نقش کر دیا ہے۔
جھوٹ منطق کو کمزور کرتا ہے، جب منطق اور سائنس کمزور ہو جائے تو اس معاشرے کا زوال یقینی ہے۔ لوگ قسمت پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور اپنی ذہنی سوچ اور جسمانی صلاحیت پر کم۔
اس سے ٹیکنالوجی اور تحقیق پر منفی اثر پڑتا ہے، جمالیاتی احساس کی کمی فطری ہے۔ ادب اور شعر وادب زندگی کی حقیقت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ خواتین کی آزادی اور مرضی پر پابندیاں یقینی ہیں۔ آخرت کے حصول کی جستجو میں لوگ حال کو بھولنے لگتے ہیں، اس سے لوگوں کی خوشیوں پر بھی اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ روایت اور ممنوعات کے پابند ہو کر خواہشات کو دبا کر زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں جس سے تمام شعبوں پر اثر پڑتا ہے۔
سائنس، ادب، ٹیکنالوجی، انصاف، اظہار رائے کی آزادی اس ماحول میں ممکن نہیں۔ معیشت کا کمزور ہونا فطری بات ہے۔ اصلاح اور جدوجہد بھی سست ہو جائے گی۔ ذات پات پرستی بڑھے گی جو ان انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مذہبی جنون کا پنپنا فطری امر ہوگا۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ ہندی)