نئی دہلی(آر کے بیورو)
امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں آر ایس ایس سے متعلق تفصیلی آرٹیکل “From the Shadows to Power: How the Hindu Right Reshaped India” (29 دسمبر 2025)کے عنوان سے شائع ہوا ہے ،جس میں بھارت کی سیاست پر اس کے وسیع تر اثرات کا جا ئزہ لیا گیاہے یہ مضمون مجیب مشال اور ہری کمار نے لکھا ہے ،اس کا جسٹ (خلاصہ) قارئین کی خدمت میں پیش ہے –
ایک صدی پہلے قائم ہونے والی ایک نسبتاً گمنام تنظیم، آر ایس ایس جس کے کارکن صبح سویرے شاکھاؤں میں لاٹھیاں گھماتے اور نظم و ضبط کی مشق کرتے تھے، آج بھارت کی سیاست، ریاستی اداروں اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کر چکی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اب محض ایک ثقافتی تنظیم نہیں رہی بلکہ بھارت کی سب سے طاقتور نظریاتی قوت بن چکی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، آر ایس ایس نے طویل عرصے تک خود کو پسِ پردہ رکھا، سیاست میں براہِ راست آنے سے گریز کیا، مگر اسی دوران اس نے ایک ایسا منظم نیٹ ورک تیار کیا جو آج حکومت، بیوروکریسی، تعلیمی اداروں، میڈیا اور سول سوسائٹی میں نمایاں نظر آتا ہے۔
1947 کے بعد کئی دہائیوں تک آر ایس ایس کو حاشیے پر رکھا گیا۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس پر پابندی بھی لگی اور اسے شدت پسند نظریات سے جوڑا گیا۔ لیکن تنظیم نے وقت کے ساتھ خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالا، اپنی شبیہ نرم کی اور بالآخر بی جے پی کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کر لی۔
نریندر مودی کا عروج اس پورے سفر کی علامت ہے۔ ایک وقت میں آر ایس ایس کے کل وقتی کارکن (پرچارک) رہنے والے مودی آج بھارت کے سب سے طاقتور وزیر اعظم ہیں۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ مودی حکومت کے دوران آر ایس ایس کا نظریہ پہلی مرتبہ ریاستی پالیسی میں کھل کر جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
مضمون کے مطابق، آر ایس ایس کا اصل ہدف محض انتخابات جیتنا نہیں بلکہ بھارت کی شناخت کو ازسرِنو متعین کرنا ہے — ایک ایسی شناخت جس میں بھارت کو بنیادی طور پر ایک ہندو تہذیبی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس سوچ میں مذہبی اقلیتیں برابر کے شہری نہیں بلکہ ایک ایسی آبادی کے طور پر دیکھی جاتی ہیں جسے خود کو اکثریتی ثقافت میں ڈھالنا ہوگا۔
نیویارک ٹائمز اس بات پر زور دیتا ہے کہ آر ایس ایس کی طاقت کا راز اس کا ادارہ جاتی پھیلاؤ ہے۔ تنظیم نے اپنے تربیت یافتہ افراد کو مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں پہنچایا، جس کے نتیجے میں فیصلے صرف حکومت کے ذریعے نہیں بلکہ ایک گہرے نظریاتی ڈھانچے کے تحت ہونے لگے ہیں۔
مضمون میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی بنیاد پر تقسیم اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ گائے کے نام پر تشدد، بین المذاہب شادیوں پر حملے، اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ، یہ سب اسی بڑے نظریاتی ماحول کا حصہ بتائے گئے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، آر ایس ایس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اپنی سوچ کو وقتی سیاست سے نکال کر ایک دائمی قومی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے، تاکہ اگر کل کو اقتدار بدل بھی جائے تو نظریاتی اثر باقی رہے۔
حاصل کلام یوں ہے اس کا اپنا نظریہ Hindu-first ہی قومیت ہے، جس میں بھارت کی مختلف مذہبی اقلیتوں کو بہت کم تر حیثیت میں دیکھا جاتا ہے
. *آر ایس ایس کا ارتقاء:آر ایس ایس نے دہائیوں میں اپنا کردار نہ صرف معاشرتی بلکہ سیاسی بھی بنایا ہے، خاص طور پر بی جے پی کے ساتھ تعلق کے ذریعے، اور وہ اب ملک کی قوتوں کو شکل دینے والا طاقتور نیٹ ورک بن چکا ہے۔
*اداروں پر کثیر جہتی اثراتنیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ سرکاری مشینری، تعلیمی اداروں، پولیس اور دیگر شعبوں میں پھیل چکے ہیں، جس سے ادارہ جاتی آزادیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔
*. نظریاتی تبدیلی:آرٹیکل کے مطابق سنگھ کا ہندو قومی اصول بھارت کے سیکولر اور کثیر الثقافتی ڈھانچے کو چیلنج کر رہا ہے، وہ ملک کی شناخت کو مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر دوبارہ ترتیب دینے کی خواہش رکھتا ہے۔
*مستقبل پر اثر*نیویارک ٹائمز کا خیال ہے کہ آر ایس ایس کا اثر مودی دور کے بعد بھی مضبوط رہے گا، کیونکہ اس نے اپنے لوگوں کو مختلف طاقت والے اداروں میں اتنا مضبوطی سے بٹھا دیا ہے کہ انہیں جمہوری طریقوں سے تبدیل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
بہر کیف مضمون دراصل آر ایس ایس کو ایک خفیہ سازشی تنظیم نہیں بلکہ ایک طویل المدت نظریاتی منصوبہ ساز تحریک کے طور پر دکھاتا ہے، جس نے صبر، تنظیم اور ادارہ سازی کے ذریعے بھارت کی سیاست اور سماج کو گہرائی سے متاثر کیا ہے۔آرٹیکل کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ آر ایس ایس نے سایہ سے اقتدار تک کی جو راہ اختیار کی ہے، وہ صرف سیاسی کامیابی نہیں بلکہ ایک انتظامی اور ثقافتی طاقت کے طور پر بھارت کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا عمل ہے







